حسنہ نام تھا میرا، مگر وہ مجھ کو محسن شہزادی کہتا تھا۔ میرے والدین اور ایان کے ماں باپ برسوں سے ہم دیوار تھے۔ بچپن سے ہم بچوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میں بڑی ہوگئی تو روک ٹوک ہونے لگی۔ والد صاحب نے ہم بہنوں پر... ہم سایوں کے گھروں میں جانے پر بھی پابندی لگا دی۔ ان دنوں پردے کی بہت پاسداری کی جاتی تھی مگر ایان کے گھر جانے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔ اس کی بہن میری بہن کی اور اس کی بھابی میری بھابی کی سہیلیاں تھیں، تاہم میری دوستی صرف ایان سے تھی۔ بچپن کی دوستی کو انسان نہیں بھلا سکتا۔ جب دنونایان کو دیکھے گزر جاتے تو میں اپنے بڑے ہونے کو کوستی، سوچتی، اے کاش کہ بچپن کے دن ہی ہمیشہ کو ٹھہرے رہتے۔ ادھر وہ بھی میری کمی کو شدت سے محسوس کرتا تھا۔ ان دنوں میں آٹھویں اور وہ میٹرک میں تھا۔ جب بابا جان کی سخت گیری کی وجہ سے ہم ملنے سے رہ گئے۔ مانی ہوئی بات ہے جہاں پابندیاں لگتی ہیں وہاں جوش و جنوں بھی بڑھتا ہے۔ اب ہم دونوں کے پاس اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ اپنی چھتوں سے تاكا جهانکی کرکے ایک دوسرے کا دیدار کرلیں۔ کچھ مدت تو یہ سلسلہ چلا۔ ایک روز ایان کی بڑی بہن شیریں باجی نے زینے سے چھت پر آتے ہوئے اپنے بھائی کو میرے ساتھ اشاروں اشاروں میں باتیں کرتے دیکھ لیا۔ اس نے اپنی بھابی جان بی بی سے یہ بات جا لگائی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ پڑوس کی بچیوں کا اپنی بچیوں سے بڑھ کر خیال کیا جاتا تھا۔ ایان کی بھابی نے اپنے شوہر کو آگاہ کیا کہ چھوٹے بھائی کی خبر لو ایسا نہ ہو کہ کل کلانان باتوں کا کچھ اور مطلب نکل آئے۔ وہ بولے یہ لڑکا سمجهانے سے بھی ہیرا پھیری سے باز نہ آیا تو کیا کریں گے۔ زمانہ بدل رہا ہے۔ ایسا کرو کہ سہیل صاحب کے وہاں جا کر ان کی بیوی سے بات کرو۔ وہ راضی ہوں تو رشتہ پکا کر لو۔ منگنی ہو جائے گی تو بدنامی کا آدها خطرہ ٹل جائے گا۔ میرے والدین نے بھی بات نکل جانے کے خوف سے ہامی بھر لی۔ گرچہ تب میری عمر تیرہ چودہ برس تھی مگر یہی بالی عمریا ہی میرے والدین کے لئے کسی بڑے خطرے کا سبب بن گئی تھی۔ منگنی کے بعد ہم دونوں بہت خوش تھے۔ ہمارے گھر والوں نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ اچھے دنوں کی آمید میں ہم دونوں کے یہ دن ہنسی خوشی گزر گئے۔ ایان کا ایف اے کا رزلٹ آگیا، وہ اچھے نمبروں سے پاس تھا۔ اس کی چھٹیاں آتے ہی بابا جان اور ایان کے بھائی جان نے ہماری شادی کی تاریخ طے کردی۔ شادی کو ایک ماہ باقی تھا کہ بدقسمتی سے ایان کے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا۔ آن کے والدین ایان کے بچپن میں وفات پا گئے تھے۔ بھابی اور بھائی نے ہی اس کو بعد میں پالا پوسا اور پروان چڑھایا تھا۔ یوں ہماری شادی ملتوی کر دی
ایان نے فیصلہ کیا کہ وہ ابھی شادی نہ کرے گا کیونکہ اس کی چار بھتیجیاں یتیم ہوگئی تھیں۔ اس نے اپنی بھابی سے کہا۔ آپ نے ماں اور بھائی جان نے مجھ کو باپ بن کر پالا تھا تو کیسے میں شادی کر کے اپنا گھر بسالوں اور آپ لوگوں کو بے یار و مددگار چھوڑوں۔ شادی کے بعد جانے حالات کیسے ہوں۔ اس کی بھابی نے بہت سمجھایا وہ نہ مانا اور کہہ دیا کہ آپ حسنہ کے گهر والوں کو منع کر دیں۔ وہ یا تو کچھ وقت اور انتظار کرلیں یا پھر اپنی بیٹی کی جہاں چاہے شادی کر دیں۔ یہ بات میرے والدین کو بری لگی اور انہوں نے جهٹ پٹ جو رشتہ آیا۔ میری شادی کر دی۔ اور میں روتی دھوتی بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی۔ شادی کے بعد میرے شوہر کا تبادلہ کراچی سے حیدر آباد ہوگیا اور میں میکے سے دور ہوگئی۔ پھر جب بال بچوں میں پڑ گئی، میکے کے اڑوس پڑوس کی بھی سن گن نہ رہی۔ والدہ کی وفات کے بعد میکے جانا بہت کم کر دیا تھا۔ انہی دنوں بھابی کراچی سے ایک روز ملنے حیدرآباد آئیں، ان کی زبانی یہ سن کر حیرت زدہ رہ گئی کہ ایان کی بھتیجی جان بانو کا قتل ہوگیا ہے۔ یہ خبر دل ہلا دینے والی تھی۔ بانو کی صورت میری آنکھوں میں پھر گئی۔ آه وه تو بلا کی حسین بچی تھی۔ وہ واقعی اتنی حسین اور پیاری بچی تھی کہ گهر بهر کی ہی نہیں اپنے چچا ایان کی بھی جان تھی۔ وہ سب سے زیادہ اپنی اسی بھتیجی سے پیار کرتا تھا۔ ایان کی بھابی کو لڑکیوں کی فکر تھی کہ ان کے بڑھنے میں دیر نہیں لگتی۔ دیکھتے دیکھتے چاروں نے قد نکال لئے۔ جان دوسرے نمبر کی تھی، مگر سروقد تھی۔ اس کا رشتہ اپنی خوبصورتی کے سبب پہلے آگیا۔ ماں نے منع کر دیا کہ پہلے بڑی کا کروں گی مگر جو رشتہ آتا وہ جان بانو کو مانگ لیتے۔ تبھی بھابی نے سوچا اسی کا پہلے کر دوں ورنہ اور بیٹھی رہ جائیں گی۔ سو انہوں نے دیور سے صلاح کی۔ اس نے کہا۔ ٹھیک ہے بھابی اب جو رشتہ آئے تو بانو کے لئے ہاں کر دینا۔ اس بار ایک اچھے اور کھاتے پیتے گھرانے سے رشتہ آگیا۔ وہ خاتون اپنے بڑے بیٹے کے لئے لڑکی دیکھنے آئی تھیں، جب جان بانو پر نظر پڑی، اس کی صورت آنکھوں میں کھب گئی، سوتیلے بیٹے کے لئے رشتہ لینے آئی تھیں مگر اپنے سگے بیٹے کا رشتہ لینے کی نیت کر لی کہ ایسی موہنی صورت والی پھر کہاں ملے گی۔ اس نے سوچا، بڑے کے لئے کہیں اور دیکھ لوں گی۔ یوں پہلے چھوٹے بیٹے کی شادی کا اہتمام کر ڈالا۔ اس بات کا رنج اس کے بڑے بیٹے طارق کو پہنچا مگر وہ خاموش ہورہا۔ جان بانو طارق کی بجائے خالد کی دلہن بن کر ان کے گھر آگئی تھی۔ شادی کے دن جان بانو محض سولہ برس کی تھی اور اس کا دولہا بائیس کا...جبکہ جیٹھ طارق اٹھائیس برس کا ہو چکا تھا۔ شادی کے دن جان بانو دلہن بن کر اتنی حسین لگ رہی تھی کہ اس پر نگاہ نہیں ٹکتی تھی۔ محلے کی عورتیں کہہ رہی تھیں کہ یہ کوئی خور ہے جو آسمان سے اتر کر زمین پر گئی ہے۔ دستور کے مطابق جیٹھ دلہن کو پہلی بار دیکھنے آیا۔ جب اس نے اس کو دیکھا سکتے میں آگیا۔ اس کی نظریں دلہن کے چہرے پر ٹک گئیں اور نظر ہٹانے کی تاب نہ رہی۔ دلہن نے اس سے تحفہ لے کر شکریہ کو نگاه او پر کی تو جیٹھ کی نگاہوں میں ایسی حسرت کی جھلک دیکھی کہ لرز کر رہ گئی۔ نجانے کیوں اس کو ان ویران سی نگاہوں میں وحشت بھی نظر آئی، تبھی شوہر کے گھر میں پہلے ہی دن سے وہ خوف کے سائے میں جینے لگی۔ ایک دن اس نے اپنی ماں سے ذکر کیا، وہ سسرال میں بہت بے آرامی محسوس کرتی ہے۔ ماں نے سبب پوچھا...کہنے لگی۔ نجانے کیوں مجھ کو اپنے جیٹھ سے خوف آتا ہے۔ وہ جب گھر آتا ہے میں چاہتی ہوں وہ نہ آئے۔ اس کا وجود میرے لئے وحشت ناک ہوتا جاتا ہے کیونکہ مجھ کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں عجب طرح کا تاثر ابھرتا ہے۔ ماں نے اس کی بات کو کچھ زیادہ اہمیت نہ دی۔ سوچا کہ ابھی کم عمر ہے، نجانے کیا سوچتی ہے۔ وہ جب میکے آتی سسرال جانے کو جی نہ کرتا۔ جان بانو کی شادی کو بمشکل دو ماہ گزرے تھے کہ ایک صبح ساس نے کہا۔ دلہن آج میں بڑی بیٹی کے گھر جا رہی ہوں، شام تک لوٹوں گی۔ تم گھر کا خیال رکھنا اور کھانا بھی تیار کر دینا۔ تنہا گھر میں رہنے کے خوف سے اس کا جی بیٹھ گیا۔ بولی۔ خالہ جان، آپ مجھ کو بھی ساتھ لے چلئے۔ تم گھر ہی رہو۔ طارق اور خالد آئیں گے ان کو کھانا کون دے گا؟ وہ ساس کا حکم ماننے پر مجبور تھی۔ ساس کو گھر سے گئے ایک گھنٹہ گزرا تھا کہ دستک ہوئی۔ جان بانو کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ وہ دروازے کے پاس گئی مگر جواب نہ دیا۔ تبھی دوسری بار اتنے زور کی دستک ہوئی کہ اس نے گھبرا کر کنڈی کھول دی۔ جس کو دیکھ کر سہم جاتی تھی وہ آ گیا تھا۔ جلد ہی جان بانو کو احساس ہوگیا کہ وہ جیٹھ کا رستہ روکے کھڑی ہے۔ تبھی وہ سامنے سے ہٹ گئی اور تیزی سے کمرے میں چلی گئی۔ اس کے کانوں نے قدموں کی چاپ کو واش روم کی جانب جاتے نا۔ طارق ہاتھ منہ دھو کر نکلا تو اس نے باورچی خانے میں جھانکا۔ جان بانو وہاں نہیں تھی۔ اس نے آواز دی، جان بانو کہاں چھپ گئی ہو. کهانا دو، بھوک لگی ہے۔ وہ اس کی آواز سن رہی تھی مگر آٹھ نہیں رہی تھی۔ جسم میں جیسے جان نہ ہو۔ تبھی قدموں کی آواز اس کے کمرے کی طرف بڑھتی سنائی دی۔ کھانا نہ دو گی... کیا ابھی تک نہیں پکایا؟ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے میں چلا آیا۔ پکا ہوا ہے، بس روٹی ڈالنی ہے۔ اس نے نظریں ملائے بغیر جواب دیا۔ تبھی نظر دیوار پر لگی اپنے ولیمے کی تصویر کی جانب أٹھ گئی جس میں وه عروسی جوڑے میں اپنے دلہا کے ساتھ بیٹھی مسکرا رہی تھی۔ وہ ڈر کے مارے طارق کی جانب نہیں دیکھ رہی تھی کیونکہ آج بیرونی دروازے سے آتے ہوئے وہ اس کو فیصلہ کن نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ گہری خاموشی سے اس کی طرف بڑھنے لگا۔ جان بانو اپنی جگہ سمٹنے لگی، تبھی اچانک طارق نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ چیخ اس کے منہ سے نکل گئی۔ اس نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو کلائی میں پڑی سونے کی چوڑیاں بھی چیخ اٹھیں۔ نازک سی لڑکی اپنے کومل کومل ہاتھوں سے اس کو خود سے پرے کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دروازے تک آ گئی۔ جب دیکھا کہ وہ اپنی کمزور مدافعتوں سے اس طوفان کا مقابلہ نہیں کرسکتی تو سہمی ہوئی چڑیا سے زخمی شیرنی بن گئی اور چلا کر بولی۔ طارق بهائی... شرم کرو... ہٹ جائو سامنے سے ورنہ جان دے دوں گی۔ اچھا! سب یونہی کہتے ہیں مگر جان دینا آسان نہیں۔ اس نے جیب سے چاقو نکال کر کہا۔ ماں رشتہ میرا لینے گئی تھی اور بیاہ دیا اس نے تم کو اپنے لاڈلے سے... میں نے اس کو کبھی سوتیلی ماں نہ سمجھا تھا اس نے سوتیلا پن دكها ديا أخر. اب اس کے اندر کا وحشی انسان پوری طرح باہر آ گیا تھا اور نازک سی بانو بھی اپنے ناموس پر نثار ہونے کو نازک نہ رہی تھی۔ وہ پوری قوت سے مقابل آچکی تھی۔ اس کو شدت سے چیختے اور لڑتے بھڑتے دیکھ وه اور زیاده غصے میں آ گیا۔ جوش غضب سے دیوانہ ہوگیا۔ ایک کمزور لڑکی ہار ماننے کی بجائے اس کو للکار رہی تھی۔ اس نے چاقو سے وار پر وار شروع کر دیئے اور وہ خون میں نہا گئی۔ وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے سے راہداری میں آ گئی اور جان بچانے کو رستہ تلاش کرنے لگی۔ مگر آگے کوئی رستہ نہ تھا۔ اپنی جان بچانے سے زیادہ اس کو عزت بچانے کی فکر ہوگئی۔ عزت تو بچ گئی مگر جان نہ بچا سکی۔ جب پولیس نے جان بانو کی ریزه ریزه ہستی کو تحویل میں لیا جس کے لہو میں ڈوبے جسم پر چاقو کے بائیس وار لگے تھے۔ پولیس کے آنے تک طارق نہا دهو، کپڑے بدل کر گھر سے نکل چکا تھا۔ گھر کو تالا لگا کر وہ ریلوے اسٹیشن چلا گیا۔ بعد میں اس نے پولیس کو بیان دیا کہ اسٹیشن چلا تو گیا مگر نہیں جانتا تها کہاں جا رہا ہوں۔ دماغ میں تیز آندھی سی چلنے لگی۔ مجھ کو احساس ہوا کہ یہ میں نے بہت غلط کر دیا ہے۔ اس معصوم لڑکی کا کیا قصور تھا، جس کو تقدير نے میری نہیں بلکہ میرے بھائی کی دلہن بنا دیا تھا۔ میں ٹکٹ گھر کی کھڑکی سے ہٹ گیا۔ تھانے چلا آیا اور خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا کیونکہ میری دماغی حالت تیزی سے بدلتی جا رہی تھی۔ جان بچانے کی فکر پر پچھتاوا غالب آتا جاتا تھا۔ اگر میں گرفتار نہ بھی ہوتا تو بھی کبھی نہ کبھی ضرور پکڑا جاتا۔ اتنا عرصہ لمبی اذیت سہنا پڑتی۔ ایان سترہ سال بعد مجھ کو اچانک ایک میڈیکل اسٹور پر مل گیا تھا۔ ان دنوں مجھے بیوہ ہوئے برس گزر چکا تھا۔ اس نے مجھ کو ایک ریسٹورنٹ میں تھوڑی دیر ساتھ بیٹھ کر چائے پینے کی آفر کی جو میں نے قبول کر لی، | کیونکہ وہ بہت ویران اور خستہ حال لگ رہا تھا اور میں جاننا چاہتی تھی کہ اس کا ایسا احوال کیوں ہے، تب اس نے جان بانو کی شادی سے... موت تک کا احوال کہہ سنایا۔ مجھ سے باتیں کر کے رو رہا تھا۔ میرا بچپن کا ساتھی اب کبھی مجھ کو اپنے دکھ سکھ کا ساتھی ہی جان کر دل کا غم سنا رہا تھا اور میں دم بخود سن رہی تھی۔ جان بانو واقعی ہماری جان تھی۔ وہ مجھ کو اپنی اولاد کی طرح عزیز تھی۔ اپنی انہی یتیم بھتیجیوں کی خاطر تو میں نے تم کو اتنا غم دے دیا۔ تم سے شادی نہیں کی۔ اپنی خوشیوں سے بھی منہ موڑا۔ ان بچیوں کو باپ کے پیار کی کمی محسوس نہ ہونے دی مگر جان کی موت کا غم بھولتا نہیں ہے۔ تم نے اب تک شادی کیوں نہیں کی۔ جبکہ تمہارے بھائی کی بیٹیاں اب تو اپنے گھروں کی ہو چکی ہیں۔ بهابی بانو بی بی نے دوسری بار میری شادی کی بات کسی گھرانے میں طے کرا دی تھی مگر میں نے ارادہ ترک کر دیا کیونکہ میری بھتیجی کے قاتل کو سزائے موت نہ ہو سکی تھی۔ وہ بعد میں اپنے اقبالی بیان سے بھی منحرف ہوگیا تھا۔ خالد نے بھی اپنے بھائی کو پھانسی کے پھندے سے بچانے کے لئے کافی کوشش کی مگر وہ سزائے عمر قید کا مستحق قرار پایا۔ چوده طويل برس میں نے انگاروں پر لوٹ کر گزار دیئے۔ میں چارپائی پر نہ سویا۔ نئے کپڑے کبھی نہ پہنے، کبھی پورا کھانا نہ کھایا۔ کسی خوشی میں شرکت نہیں کی۔ کبھی عید نہ منائی، صرف اس لئے کہ قاتل باہر آئے تو اس کو زنده پائوں اور پھر اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کروں۔ بھابی بانو بی بی سے بھی کہتا تھا کہ میں زنده اسی لئے ہوں کہ جان بانو کے قاتل کو انتقام کی اس آگ سے بجھا دوں جو دن رات میرے وجود کو جلاتی رہتی ہے۔ میں نے اسی سبب شادی نہ کی۔ بالاخر یہ مدت انتظار تمام ہوئی۔ وہ دن آگیا جب طارق سلاخوں سے بابر آیا۔ اس کی سزا کا عرصہ پورا ہو چکا تھا اور میں اس کے گھر کے باہر اس کی أمد کا انتظار کر رہا تھا۔ اب میں اس کو مزید سانسوں کی مہلت نہ دے سکتا تها مگر خدا کو یہ منظور نہ تھا کہ میں اپنی بے گناہ بھتیجی کے خون کا بدلہ اپنے ہاتھوں سے لے سکوں اور قاتل بنوں۔ وہ گھر آیا تو مگر افسوس زنده نہیں موت کی چادر میں منہ چھپا کر۔ وہ پشاور سے آگے کہیں اپنے آبائی علاقے کو نکل رہا تھا کہ ہائی وے پر اس کی سواری حادثے کا شکار ہوگئی۔ وہ موقع پر ہلاک ہوگیا۔ قدرت کے کھیل نرالے ہیں۔ چودہ سال کی سزائے عمر پوری کر لینے کے بعد بھی اس کو معافی نہ ملی اور وہ زندہ اپنے گھر کے دروازے کے اندر قدم نہ رکھ سکا۔ موت نے تو یوں بھی اس کو اس کے گھر تک آنے کی مہلت نہ دینی تھی، میں ناحق بدلے کی آگ میں خود کو جلاتا رہا۔ ہر خوشی کو حرام کر لیا جبکہ قدرت نے خود اس سے بدلہ لینا تھا۔ یہ میری خام خیالی تھی کہ قانون کو ہاتھ میں لینا چاہتا تھا... اب سوچتا ہوں، بے شک انسان فانی ہیں مگر میں نے اپنی زندگی کو فنا کر کے کیا پایا۔ یہ کہہ کر ایان نے آنسو پونچھے، اس کے بال سفید تھے اور وہ اپنی عمر سے زیادہ بوڑھا نظر آرہا تھا۔ اس نے اپنا دکھ میری غمگساری کے کاسے میں ڈالا اور چلا گیا۔ اس کے بعد وہ مجھ کو کبھی نہیں ملا۔
0 Comments