Panah Ki Talash Main Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Panah Ki Talash Main Teen Auratien Teen Kahaniyan



ماں دنیا میں سب سے زیاده قابل احترام بستی ہے۔ کہتے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے لیکن میں نے جس عورت کی کوکھ سے جنم لیا، شاید کہ وہ ماں کے رتبے کے لائق نہ تھی۔ میری ماں بدچلن نہ تھی مگر پہلے شوہر سے نہ بنی تو اپنی مرضی سے دوسرا کرلیا۔ یہ ماں کی میرے باپ سے دوسری شادی تھی۔ انہوں نے میرے والد کی محبت میں مبتلا ہو کر پہلے شوہر سے طلاق لے لی تھی۔ ابو کا پہلی بیوی سے ایک بیٹا تها اور امی دوسری شادی سے قبل تین بچوں کی ماں تھیں۔ میرے والد سے شادی کے بعد الله تعالی نے ان کو پھر اولاد سے نوازا اور ہم دو لڑکیاں ان کی کوکھ سے پیدا ہوگئیں۔ بچپن کچھ ایسا خوشگوار نہ گزرا مگر جب ہوش سنبھالا، خود کو بہت بے چین ماحول میں پھنسا پایا۔ جانے یہ کیسی محبت کی شادی تھی کہ امی، ابو کی ایک منٹ نہ بنتی تھی، ہر وقت دونوں کے بیچ دانتا كل كل رہتی اور جب بات مارکٹائی تک پہنچ جاتی تو ہم بچے کونوں کھدروں میں جا بکتے۔ یہ طوفان روز ہی اٹھتا مگر اس کا انجام کہیں نظر نہ آتا۔ ہمارے گھر کے حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ تعلیم کا برج ہورہا تھا اور ماں کو اس بات کا احساس نہ تھا کہ تعلیم جس کو زیور کہا گیا ہے، ان کے بچے اس سے محروم رہ جائیں گے۔ بالآخر گهر کا گهروا ہوگیا کہ جس گھر کی اساس ہی غلط رکھی جائے، وه کیسے آباد رہ سکتا ہے۔ انہی دنوں خوش قسمتی سے میری بڑی سوتیلی بہن کی شادی ایک اچھے گھرانے میں ہوگئی اور وہ بیاہ کر اپنے گھر چلی گئیں۔ انہوں نے الله کا شکر ادا کیا کہ جہنم سے نجات ملی۔ ہماری یہ بہن امی کے پہلے شوہر سے تھیں جن کو وہ طلاق کے بعد ساتھ لے آئی تھیں۔ امی کے دونوں بیٹے بھی جو پہلے شوہر سے تھے، اپنی بہن کی شادی کے بعد حقیقی والد کے پاس لوٹ گئے۔ گھر میں ہم دو بہنیں باقی رہ گئیں۔ باجی کی شادی کے بعد امی اور لاپروا ہوگئیں۔ اب وہ میرے والد سے کہتیں۔ اگر میں دربدر ہوئی تو کیا... فياض میاں! دیکھ لینا تمہاری دونوں بیٹیاں بھی دربدر ہوں گی۔ ان کو میں تمہارے حوالے تو نہ کرکے جائوں گی۔ امی، ابو کے جھگڑے کا سر پیر کبھی ہماری سمجھ میں نہ آیا لیکن اب میرے والد گھر کے پرسکون ماحول سے تنگ آکر زیاده وقت باہر گزارنے لگے۔ وه | رات کو بھی دیر سے گھر آتے جس پر والده خوب ہنگامہ کرتیں۔ کہتیں۔ میاں فياض! یاد رکھنا اگر تم نے کوٹھے پر جاکر دولت لٹائی تو میں تمہاری لڑکیوں کا بھی ایسا انجام کروں گی کہ تم عمر بهر سزا بھگتو گے۔ اس بات پر میرے والد ان کو خوب پیٹتے مگر وہ بدزبانی سے باز نہ آتیں۔ خدا جانے انتقام کی آگ میں ماں کیسے کیسے منصوبے بنانے لگیں اور جب ابو نے رات کو دیر سے آنا نہ چھوڑا تو میری ماں نے ایک دن ایسا جھگڑا کیا کہ والد گھر سے اپنا سوٹ کیس لے کر نکل گئے۔ شام تک ہماری ماں بیٹھ کر روتی رہیں۔ جانے پهر کیا جی میں سمائی کہ زیورات، نقدی اور کچھ قیمتی اثاثہ سمیٹ، وہ ہم کو ساتھ لے کر باجی کے گھر چلی آئیں۔ ان دنوں میں ساتویں اور نیلو پانچویں میں تھی۔ امی کے اس اقدام سے ہمارا اسکول بھی چھوٹا۔ کہتی تھیں کہ یہ اسکول گئیں تو ان کا باپ وہاں سے ان کو لے جائے گا لہذا ہمارا اسکول جانا موقوف رکھا۔ امی کا خیال تھا کہ اس احتجاج پر ابو چند روز بعد باجی کے گھر سے ہمیں آکر لے جائیں گے مگر وہ بھی امی سے اتنا تنگ تھے کہ ہمیں اور امی کو لے جانے کی زحمت گوارا نہ کی اور اپنی پہلی بیوی کو منا کر گھر لے آئے۔ اس کے بعد ہماری وہاں گنجائش نہ رہی۔ باجی نے مجھے سال بھر گھر پر پڑهایا اور پھر آٹھویں کا پرائیویٹ امتحان دلوایا۔ اب میں عمر کے اس دور میں تھی کہ جو مائوں کے لئے بے شمار اندیشوں کو جنم دیتا ہے مگر ماں کو احساس نہ تھا کہ وہ داماد کے در پڑی ہیں البتہ باجی ہمارے بارے فکر مند رہنے لگی تھیں کیونکہ ان کے شوہر مجھ کو جن نگاہوں سے تکنے لگے تھے، اپنے لئے میرے وجود کو وہ اپنے گھر میں خطرہ محسوس کرنے لگی تھیں۔ باجی کا سکون جاتا رہا۔ وه آب سائے کی طرح میرے ساتھ لگی رہتیں۔ مجھ کو احساس ہورہا تھا کہ میری بہن کا ذہنی سکون لٹ گیا ہے۔ میں بہن کو پریشان دیکھ کر ماں کو احساس دلاتی کہ ہم کب تک بہنوئی کے گھر رہیں گے۔ ماں کچھ تو سوچو! کیا داماد کے گھر تمہارا اتنا لمبا قیام درست ہے؟ آخر کیوں بیٹی کا گھر برباد کرنا چاہتی ہو؟ بار بار احساس دلانے سے امی کو فکر ہوئی کہ اب مزید یہاں قیام ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے ایک سہیلی کو کہا کہ وہ بیٹی اور داماد کے گھر سے جانا چاہتی ہیں مگر کہاں جائیں! یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی رہنے کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ وہ سہیلی مجھے کچھ ٹھیک نہ لگتی تھی مگر اس نے کہا کہ میرے ایک واقف کار ہیں، ان سے بات کرتی ہوں۔ تم میرے ساتھ چل کر ان کو اپنا مسئلہ بتائو شاید وہ کوئی حل نکال دیں۔ سہیلی کے اس واقف کار کا نام انعام تھا۔ یہ ایک زمیندار تھا جس کو اس کے علاقے میں ملک صاحب کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ملک صاحب نے میری ماں کو بیٹیوں سمیت اپنے سایہ مہربانی میں پناہ دے دی اور ایک مناسب مکان رہنے کو عطا کردیا جس میں عمده فرنیچر اور ایک ملازم موجود تھا۔ والده بمیں سامان سمیت ملک صاحب کی عنایت کرده رہائشگاہ پر لے آئیں۔ ملک صاحب چالیس برس کے تھے۔ اچھی صورت شکل اور صحت کے مالک تھے۔ وہ ہفتہ میں دو بار ہماری طرف چکر لگاتے۔ کبھی دوپہر اور کبھی شام کو...! والده ان کی خاطر تواضع کرتیں اور اکثر کھانا بنائیں کہ ان کے ہاتھ کا کھانا ملک صاحب کو پسند آتا تھا۔ کچھ دنوں بعد میری ماں نے محسوس کیا کہ ملک صاحب مجھ کو لگاوٹ کی نظروں سے دیکھتے ہیں تو انہوں نے برملا کہہ دیا کہ بہتر ہے آپ میری بیٹی سے نکاح کرلیں تاکہ مجھ کو ایک جائز اور باعزت ٹھکانہ میسر آجائے۔ انہوں نے کہا۔ کچھ دن صبر کرو، میں شاید شاہانہ سے نکاح کرلوں گا۔ في الحال حالات سے نمٹ لوں کہ شادی شدہ اور بال بچے دار ہوں۔ بیوی خاندان سے ہے۔ عجلت میں یہ قدم اٹھایا تو میرا کچھ نہیں جائے گا مگر تمہاری بیٹی کا گھر آباد نہ ہوسکے گا اور آپ لوگ اس ٹھکانے سے بھی جائیں گے۔ کوئی چاره نہ دیکھ کر ماں نے اس آدمی کی جھجھک مٹا دی تھی۔ اب وہ انہی کے سامنے مجھے لگاوٹ کی نظروں سے دیکھتا اور یہ چپ رہتیں مگر زبان سے کبھی ملک نے غلط بات نہ کہی۔ کچھ دن بعد ملک صاحب از خود مجھے اچھے لگنے لگے۔ ان کی شخصیت میں کشش تھی کہ میرا جی کرتا روز آیا کریں۔ وہ نہ آتے تو انتظار کرتی رہتی۔ ان کی جدائی شاق گزرنے لگی۔ ملک صاحب کے ساتھ ان کا ایک دوست بھی آیا کرتا تھا جس کا نام نعمان تها۔ یہ ان کا بزنس پارٹنر تھا۔ اکثر دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بزنس کے بارے بات کیا کرتے تھے۔ ملک صاحب نے مجھ سے ابھی تک لگاوٹ قائم رکھی تھی مگر میری پاک دامنی کی طرف ہاتھ نہ بڑهایا تھا، مگر نعمان دوسری طرح کا شخص تھا۔ اس کی میلی نظریں میں خوب پہچاننے لگی تھی، | تبھی اس کے سامنے جانے سے گریز کرتی تھی، تاہم کبھی کبھی جب ملازم موجود نہ ہوتا تو میں ہی چائے کی ٹرے ملک صاحب اور ان کے دوست کے سامنے جاکر رکھتی تھی۔ انہی دنوں عید آگئی۔ ملک صاحب مجھے اور امی کو شاپنگ مال لے گئے، عید کی شاپنگ کروائی۔ گھر آئے تو بہت خوش تھے۔ بولے۔ آج آپ لوگوں کو خوشخبری سناتا ہوں کہ اگلے ماہ میں شاہانہ سے نکاح کرلوں گا۔ میں نے کافی سوچ بچار کی ہے اور اب فیصلہ کرلیا ہے اس طرح آپ لوگوں کو نہیں رکھ سکتا۔ میں انسان ہوں، فرشتہ نہیں، کسی دن مجھ سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوجائے اور مجھ پر الله کی ناراضی سے کوئی تباہی آجائے۔ میں دل سے تم کو سہارا دینا چاہتا ہوں۔ ان کی باتیں سن کر بہت خوشی ہوئی۔ بالآخر میرا مقدر جاگا، میرا نصب العین مجھے ملنے والا تھا۔ میری دانست میں ملک صاحب نے مجھے جانچ لیا تھا۔ اب میں ان کی بیوی، ان کی عزت بننے والی تھی۔ سوچتی تھی صد شکر ہم سے واقعی کوئی گناہ سرزد نہ ہوا کہ گناہ انسانوں کو بہت دنوں تک راس نہیں آتے۔ میری ماں کا صبر بھی کام آیا کہ جنہوں نے اپنی متلون طبیعت اور تیز مزاجی سے دو بار اپنا گھر تو برباد کرلیا تھا مگر دربدر ہوکر شاید ان کو شریفوں اور شرافت کی قدر سمجھ آگئی تھی۔ سوچتی تھی کہ ملک سا مہربان انسان اگر باضمیر نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ آج جبکہ ہم مجبور اور بے آسرا عورتیں ان کے قبضے میں تھیں، چاہتے تو کسی قسم کا فائدہ بھی اٹھا سکتے تھے تاہم انہوں نے شاید میری معصومیت پر ترس کھاتے ہوئے ایسا کچھ نہ کیا جس کی وجہ سے بعد میں ان کو یا ہم کو ندامت ہوتی۔ میں نئی زندگی میں آنے والی خوشیوں کے خواب سجانے میں مگن تھی اور ماں میرے لئے روز ملک صاحب کے ڈرائیور کے ساتھ جوڑے وغيرها خریدنے جاتی تھیں۔ انہی دنوں ایک شام ملک صاحب کچھ زیورات کے ڈبے لائے اور امی کو دے کر کہا کہ پسند کرلیں، شاہانہ کو بھی دکھا دیں۔ یہ کہہ کر وہ پلٹے کہ نعمان ساتھ ہے۔ چائے بنوایئے، میں اس کو ڈرائنگ روم میں بٹھا آیا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ چائے بن گئی۔ ملازم موجود نہ تھا۔ آج بھی میں ٹرے لے کر ڈرائنگ روم میں چلی گئی۔ پہلے بھی جاتی تھی۔ اسی وقت گاڑی لاک کرنے ملک صاحب باہر نکلے تھے اور نعمان اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ جونہی ٹرے میں نے میز پر رکھی، اس نے مجھ سے اچانک ایسی بدتمیزی کی کہ میں غصے سے جھنجھلا اٹھی اور اس سے پہلے ملک صاحب آجاتے، بنا | کچھ کہے، ان کے خوف کی وجہ سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ ان کو برملا نہ کہہ سکی کہ تمہارے پارٹنر نے مجھ پر دست درازی کی کوشش کی ہے۔ میں خاموشی سے کمرے میں جاکر بیٹھ گئی تھی اور آنسو پی لئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد نعمان چلا گیا تو ملک صاحب میرے کمرے میں آئے۔ پوچھا۔ زیورات دیکھے، پسند آئے؟ میں خاموش تھی۔ زیورات کے ڈبے سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر امی کچن میں چلی گئی تھیں، سو وہ اسی طرح دھرے تھے۔ بولے۔ آئندہ تم میرے کسی دوست کے سامنے چائے لے کر مت آنا۔ پھر انہوں نے ایک سیٹ نکالا اور کہا۔ پہن کر دکھائو، کیسا لگتا ہے۔ تبھی آگے بڑھ کر ہار میرے گلے میں پہنانے کو ہوئے تو ان کو میرے رخسار سے سگریٹ کی بو آئی۔ کہنے لگے۔ کیا تم سگریٹ پینے لگی ہو؟ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ سگریٹ میں بھی نہیں پیتا تو پھر یہ بو کیسی ہے؟ وہ جانتے تھے کہ نعمان بے تحاشا سگریٹ پیتا ہے۔ جس وقت وہ گاڑی لاک کرکے ڈرائنگ روم میں لوٹے تھے، اس وقت بھی وہ سگریٹ پی رہا تھا۔ یہ و خاص اسی کے سگریٹ (برانڈ) کی تھی۔ یکایک ان کا چہرہ سرخ ہوگیا جیسے غصے سے تمتما اٹها ہو۔ ملک صاحب کے بارعب، بردبار چہرے پر غصے کی تپش اور آنکھوں سے لپکتے غضب کے شعلے دیکھ کر میرا دم فنا ہوگیا اور زبان گنگ رہ گئی۔ چاہتے ہوئے بھی ان کے دوست کی گستاخی کو بیان نہ کرسکی۔ ایسا کرتی بھی تو ان پر شک کا در وا ہوجاتا۔ اس وقت خوف زدہ ہوکر یہ میں نے سوچا تھا کہ بہتر ہے ابھی چپ رہوں۔ میری خاموشی ہی میری قاتل بن گئی۔ میری بزدلی نے میرا تمام سنہری اثاثہ، میرا مستقبل مجھ سے چھین لیا اور ملک صاحب پر شک کے ایک نہیں ہزار دروازے وا ہوگئے مگر میری زبان نہ کھلی کہ مجھے ڈر تھا ملک صاحب ایسی بات سن کر کہیں مجھے نہ چھوڑ دیں اور جو خوشی اچانک باتھ لگی ہے، وہ کھو جائے۔ اس خوشی کو کسی صورت کھونا نہ چاہتی تھی۔ وہ وضاحت طلب نظروں سے مجھے گھور رہے تھے۔ بالآخر میں نے لب کھولے، جھوٹ کا سہارا لیا۔ ان کو کہا کہ آپ کو وہم ہوا ہے، چائے کی ٹرے رکھتے ہوئے میں نے میز پر پڑی ایش ٹرے کو ایک طرف اٹها کر رکها تها۔ میرا ہاتھ ایش ٹرے میں پڑی بجھی ہوئی سگریٹ کے ایک ٹوٹے سے ضرور چھو گیا تھا شاید اسی ہاتھ سے میں نے اپنے گال کو چھو لیا ہوگا۔ انہوں نے میرا چہرہ ہاتھ میں لے کر اچھی طرح رخسار کو سونگھا اور بولے۔ تم جھوٹ بول رہی ہو۔ چلی جائو میرے سامنے سے، ایسا نہ ہو کہ میں غصے میں ابھی کے ابھی تیرا گلا دبا دوں۔ انہوں نے سونے کا ہار فرش پر پٹخ دیا۔ میں روتے ہوئے ماں کے پاس چلی گئی۔ ان کو احوال بتا کر کہا۔ ماں! اس کمبخت نے مجھے مہلت ہی نہ دی کہ ملک صاحب سے کچھ کہتی۔ مجھے ملک صاحب سے کتنا ڈر لگتا ہے، آپ تو جانتی ہو۔ اب بتائو میں کیا کروں؟ میں سسک پڑی۔ ماں نے پیار سے میری پیشانی چومی اور تسلی دی۔ انہوں نے ملک صاحب کو سمجھانے اور میری بے گناہی کا یقین دلانے کی کوشش کی۔ وہ نہ سمجھے۔ کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھے بلکہ غصہ ان کا اور سوا ہوگیا۔ خود پر تب قابو نہ رہ سکے اور میرے گال پر تھپڑ رسید کردیا۔ بولے۔ اچها ہوا کہ وقت پر تمہاری اصلیت کھل گئی ورنہ آگے چل کر جانے کیا ہوتا۔ میں نے معافی مانگنا چاہی، انہوں نے دھتکار دیا۔ ماں سے کہا کہ تم لوگ جہاں چاہو، چلی جائو۔ میں تین دن کی مہلت دیتا ہوں۔ اب آئندہ تم لوگوں کو یہاں نہ پائوں۔ گھر کی چابی ملازم کے حوالے کر جانا۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ میں کافی دير ماں کی گود میں سر رکھ کر روتی رہی۔ بالآخر بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے اپنی اسی سہیلی کو فون کیا جو ہر آڑے وقت ان کے کام آتی تھی۔ آنٹی نیما بولی۔ بہتر ہے کہ اب تم کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈ لو یا بیٹی کے گھر چلی جائو۔ ملک صاحب کا مزاج میں جانتی ہوں۔ ایک بار کسی سے منہ پھیر لیں پھر مڑ کر نہیں دیکھتے۔ ان کو سمجھانا بیکار ہے۔ ملک صاحب نے تین دن کی مہلت دی تھی مگر ایک ماہ تک نہ آئے دوران امی نے بہت بار ان کو فون کیا کہ شاید لوٹ آئیں، وہ نہ آئے بلکہ امی کو کہا کہ میری بیوی ایک پاک دامن عورت ہے۔ تم لوگ تو اس کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہو۔ میں تم جیسوں پر کیسے بھروسہ کرسکتا ہوں۔ باجی سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ میرے گھر مت آنا۔ تمہاری ایک بیٹی کو سنبھالا، اب اپنے مسئلے خود سنبهالو۔ آنٹی نیما نے ایک اور جگہ ہمارے رہنے کا بالآخر بندوبست کرادیا۔ یہ بھی ایک صاحب حیثیت زمیندار تھے مگر ملک صاحب جیسے نہ تھے۔ اس شخص کے دل میں تو پہلے دن سے ہی دلدل تھی اور نیت درست نہ تھی بلکہ مجھے دیکھتے ہی کہا تھا کہ یہ تو ایسی کھلتی ہوئی کلی ہے کہ جس کو پہلی نظر میں ہی توڑ لینے کو جی چاہتا ہے۔ اس نے ٹھیک کہا تھا کہ ان کی بیویاں ٹھس عورتیں مگر پاکیزه دلہنیں جبکہ ہم حورشمائل مگر بے آسرا | لڑکیاں! واقعی ایسی کلیاں ہوتی ہیں کہ جن کو پھول بننے سے پہلے ہی ہر کوئی توڑ کر پھینک دینا چاہتا ہے۔ جب ماں سمجهدار نہ ہو اور بیٹی جواں سال ہو، پرائے در پر امان کا مل جانا، معجزہ ہوتا ہے کہ جن کے سروں پر شوہر، باپ یا بھائی کا سایہ نہیں ہوتا، ان کو مضبوط جائے پناہ نہیں ملتی۔ الکھ نہیں سکتی آگے وقت نے کیا سلوک کیا۔ اس کے بعد کتنی ہی پناہیں بدلیں، کتنے ہی ہمدرد صاحب حیثیت ملکوں اور رئیسوں نے اسرا بھی دیا مگر ہر ایک نے شادی کی عرضداشت پر یہی کہا۔ کہ ذرا اور آزما لوں، بعد میں نکاح بھی کرلوں گا۔ یوں انہی آزمائشوں میں زندگی کی شام ہوگئی۔ وہ دن نہ آسکا کہ میں دلہن بنتی اور کوئی شریف زاده مجھے بیاہ کر گھر لے جاتا۔ آج سوچتی ہوں کہ ماں میری چھوٹی بہن نیلو کے لئے روتی تھی کہ ضد کرکے باجی کے پاس کیوں چلی گئی۔ باجی نے سولہ برس کی عمر میں نیلو کی شادی اپنے دیور سے کرا دی تھی ورنہ آج وہ بچاری بھی میری طرح پناہ گاہیں ڈھونڈتی اور دلہن بننے کو ترستی رہ جاتی

Post a Comment

0 Comments