Girti Deewarien Teen Auratien Teen Kahaniyan

 


Girti Deewarien  Teen Auratien Teen Kahaniyan

جب جلیل بھائی نے بتایا کہ پروفیسر این صاحب نے خودکشی کرلی ہے تو میں ششدر رہ گئی۔ ہم سوچ نہ سکتے تھے اس قدر پڑھے لکھے سلجھے ہوئے اور مثبت سوچ رکھنے والے ، ہمارے شفیق استاد خودکشی بھی کرسکتے تھے۔ وہ جو ہم کو روشن راہ دکھانے والے اور زندگی کے رموز سے آگاہ کرنے والے، كس وجہ سے اتنی جلد ہمت ہار گئے جن کو ہم ایک بلند و بالا قلعہ کی مانند مضبوط رہنما سمجھتے تھے۔ دنيا عجائبات کا گھر ہے اور انہونیوں کا نگار

خانہ ۔ یہاں جو نہ ہو، کم ہے۔ جب امی نے سنا ان کو بھی دکھ ہوا، کہنے لگیں۔ اتنا عرصہ تم لوگوں نے اس مہربان پروفیسر سے فیض پایا ہے، اگر ممکن ہوتو ہم کو ان کے گھر والوں کے پاس تعزیت کے لئے جانا چاہئے۔ جلیل بھائی کو اس قدر قلق تھا کہ وہ خود بھی اس سانحے کے بعد ان کے گھر کی طرف نہیں گئے حالانکہ اس خبر کو سن کر وہ اتنے دکھی ہوئے کہ کئی روز تک سوائے چند گھونٹ پانی کچھ کھایا نہ پیا اور بیمار پڑ گئے۔ اماں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ میرے بھائی کا ان کی خودکشی سے براہ راست تعلق ہے اور جلیل کی وجہ سے ان کی جان ہے، ورنہ مرحوم پروفیسر کے گھر جانے کے لئے اماں اصرار نہ کرتیں۔ قصہ یوں تھا کہ جن دنوں ہم ایف ایس سی میں پڑھتے تھے، ہم بہن بھائی پڑھائی میں کمزور تھے۔ تبھی پروفیسر صاحب نے کہا تھا کہ تم دونوں کچھ مدد سے ہیں۔

دن میرے گھر آکر مجھ سے مدد لو ورنہ ایف ایس سی میں اچھے نمبر نہ لاسکو گے۔ امتحان نزدیک تھا، میں نے بھائی پر دبائو ڈالا کہ مجھے بھی ان کے گھر لے چلو۔ ہم پرچوں کی تیاری میں ان پروفیسر صاحب اپنے ہر شاگرد کی تعلیمی حالت سے واقف رہتے تھے اور ان میں انفرادی دلچسپی لیا کرتے تھے۔ وہ پچاس پچپن برس کے ہوں گے مگر ابھی تک بہت چاق و چوبند تھے اور اپنے فرائض کماحقہ ادا کرنے کے قابل بہرحال میں جلیل کو راضی کیا کہ چند دن تم مجھے بھی پروفیسر صاحب کے گھر لے چلو تاکہ میں کچھ مضامین میں مدد لے سکوں کہ جن میں پرابلم آرہا ہے۔

بڑی مشکل سے بھائی مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر راضی ہوا۔ ہم ان کے گھر گئے، انہوں نے شفقت سواگت کیا اور کمرے میں لا بٹھایا۔ یہ غالباً وہ سے کمرہ تھا جہاں وہ دیگر ہم جیسے : شاگردوں کو بھی وقتاً فوقتاً ٹیوشن دیا کرتے تھے۔ کمرے کی ترتیب میں چند کرسیوں،

ایک بڑی میز اور کتابوں کی الماریوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کا گھر دو منزلہ تھا۔ نیچے کی منزل کو مردان خانہ کہنا چاہئے جہاں ہماری طرح کے طالب علم آکر علم کی پیاس بجھاتے تھے۔ اس منزل میں ایک بیٹھک، ایک بال کمرہ اور ان کی ذاتی لائبریری تھی، گھر کا یہ حصہ کتابوں سے بھرا تھا مگر انسانوں سے خالی تھا۔ البتہ اوپر کی منزل پر جو چوبارہ بنا ہوا تھا، وہاں کوئی ضرور رہتا تھا۔ کیونکہ اوپر کچن سے کھانا پکانے کی خوشبو اور چوڑیوں کی کھنک بھی اکثر سنائی دیتی تھی۔ ہم یہی سمجھتے تھے کہ ان کے

اہل خانہ کا قیام اوپر ہے مگر انہوں نے کبھی اپنے گھر والوں سے ملوایا اور نہ ہم نے خود سے بالائی منزل جانے کی جرأت کی۔ میں بھائی کے ساتھ ایک ماہ ان کے گھر شام کو ایک گھنٹہ کے لئے جاتی رہی کیونکہ ایک مضمون میں کمزور تھی۔ جب انہوں نے وہ مسئلے سمجھا دئیے جو مجھے نہیں سمجھ آتے تھے تو میں نے پروفیسر صاحب کے گھر جانا بند کردیا، لیکن جلیل پھر بھی ان سے پڑھائی میں مدد لیتا رہتا تھا کہ وہ تین مضامین

میں کمزور تھا۔ ایک بار جلیل جب پڑھنے کے لئے ان کے پاس گیا وہ گھر پر موجود نہ تھے۔ دستک دی چوبارے کی کھڑکی کھلی اور پھر بند ہوگئی۔ جس کا مطلب تھا کہ پروفیسر صاحب گھر پر موجود نہیں ہیں۔ تھوڑی دیر در پر رکے رہنے کے بعد جلیل نے گھر کی راہ لی۔ کسی جھانکا تو تھا پھر کھڑکی بند کردی۔ اوپر کون رہتا تھا، اس کی کسی کو خبر نہ تھی۔ پروفیسر صاحب اپنی نجی زندگی کے بارے میں کچھ بتانا یا کسی سے کچھ سننا پسند نہ کرتے تھے۔ اب جب کبھی بھی پروفیسر صاحب گھر نہ ہوتے دستک کی آواز پر کھڑکی اسی طرح کھلتی اور بند ہوجاتی، تب جلیل سمجھ جاتا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں، وہ پلٹ جاتا۔ شاید ان کی خواتین خانہ کو یہی ہدایت تھی کہ پروفیسر کی غیر موجودگی میں وہ بغیر بات کئے محض کھڑکی کو کھول کر بند کردیا کریں اور کسی دستک کے جواب میں کلام کی اجازت نہ تھی۔ ہاں اگر وہ خود موجود ہوتے تب دستک کے جواب میں فوراً آواز لگاتے کہ کون ہے؟ اور پھر فوراً باہر آجاتے۔

کافی دن امتحانات تک وقفے وقفے سے جلیل اپنے استاد کے گھر شام کو اسی طرح جاتا رہا۔ امتحان ختم ہوگئے تبھی عید آگئی۔

ان دنوں عیدین پر عید کارڈز اور تحفے اپنے عزیز و اقارب اور خاص احباب کو دئیے جاتے تھے۔ جلیل نے بھی عید کارڈ اور مٹھائی کا ڈبا لیا اور عید کے روز وہ عقیدت کے اظہار کے طور پر سر کے گھر چلا گیا۔ حسب معمول دستک پر چوبارے سے کھڑکی کھلی اور بند ہوگئی۔ جلیل تھوڑی دیر پھر بھی رکا رہا، جب یقین ہوگیا استاد گھر پر موجود نہیں ہیں تو واپس جانے کو مڑا، ایک صفائی کرنے والی ملازمہ ادھر کو آتی دکھائی دی۔ وہ پروفیسر صاحب کے گھر کی جانب جارہی تھی، جلیل نے اس کو روک کر پوچھا۔ کیا تم اس گھر کا کام کرتی ہو؟ بولی... ہاں ہفتے میں دو دن نچلی منزل میں

صفائی کرتی ہوں۔ مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو میاں؟ میں پروفیسر صاحب کا شاگرد ہوں، آج ان کو عید کی مبارک باد دینے آیا تھا۔ دستک دی تو جواب نہیں ملا، وہ گھر پر نہیں ہوں گے تبھی جواب نہیں ملا۔ یہ کہہ کر وہ چلنے لگی۔ اماں سنو۔ کیا ان کے گھر کے اوپر کوئی نہیں رہتا کہ میں یہ مٹھائی ان کو بھجوا دوں۔ ایک لڑکی ہے تو، مگر یہ نہ ہو استاد صاحب برا منائیں۔ انہوں نے آسیہ بی بی سے کہہ رکھا ہے کہ میری غیر موجودگی میں

کوئی کچھ لائے تو قبول نہ کریں۔ گویا جو لڑکی اوپر ہے اس کا نام آسیہ ہے۔ اس نے جواب نہ دیا۔ وہ عورت شاید جلدی میں تھی اتنا کہہ کر آگے بڑھ گئی اور جلیل منہ دیکھتا رہ گیا۔

گھر آکر بھائی نے مجھے بتایا کہ پروفیسر صاحب کی ایک لڑکی بھی ہے جو اوپر کی منزل پر رہتی ہے۔ شاید وہ ان کی بیٹی ہے۔ کام والی عورت نے اس کا نام آسیہ بتایا ہے۔ ہاں ہوگی، پروفیسر صاحب کے پاس شاگرد آتے رہتے ہیں تبھی نیچے کی منزل میں نہیں آتی ہوگی۔ لگتا ہے کہ ان کی لڑکی اوپر اکیلی رہتی ہے۔ ممکن ہے اس کی ماں مرچکی ہوگی تو ہی اکیلی رہتی ہوگی، میں نے قیاس سے کہہ دیا۔ رزلٹ آگیا ہم نے اچھے نمبر لئے تھے، تبھی جلیل نے سوچا کہ سر کے پاس جاکر مبارک باد دینی چاہئے کہ انہوں نے محنت کرائی تھی۔ وہ ان کے گھر گیا، وہی ملازمہ گلی گزر رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ پروفیسر صاحب سے بیمار ہیں تبھی کالج بھی نہیں گئے۔ یہ کہہ کر وہ تو آگے بڑھ گئی۔ جلیل نے ان کے در پر جاکر دستک دی۔ آج پہلی بار دروازے کی کنڈی کھلی اور اوپر رہنے والی کو نچلی منزل میں پایا۔ شاید کہ وہ ملازمہ سے صفائی کرانے کو اتری تھی کہ جلیل نے در بجادیا۔ وہ لڑکی سامنے آگئی اور اندر آنے کو کہا۔ جلیل نے پہلی بار اس کو دیکھا تھا حیران ہوا۔ سوچا شاید بیماری کی وجہ سے خود باہر نہیں آئے، تبھی اندر بلایا ہے۔ وہ لڑکی کے پیچھے اندر چلا گیا۔ صحن سے گزر کر وہ اسے کمرے میں لے گئی اور کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کیا آپ بـ آسیہ ہیں؟ ہاں... سر کہاں ہیں؟ وہ بیمار ہیں، اسپتال گئے ہیں۔ میں نے اکثر تم کو ان کے پاس آتے دیکھا ہے۔ مگر کئی دنوں سے نہیں آئے؟ امتحان ہوچکے، رزلٹ بھی آگیا۔ میں پاس ہوگیا ہوں۔ مٹھائی دینے آیا تھا لیکن وہ گھر پر نہیں تھے۔ جلیل نے ایک سانس میں ساری بات بتادی۔ اچھا۔ مبارک ہو پاس ہوگئے ہو۔ میں اکثر تم کو کھڑکی سی دیکھا کرتی تھی۔ میں اب چلتا ہوں۔ جلیل جانے کو ہوا، اسے محسوس ہورہا تھا کہ استاد کے گھر ان کی غیر موجودگی میں لڑکی کے پاس بیٹھنا ٹھیک نہیں ہے۔ تھوڑی دیر بیٹھئے چائے پی کر جائیے۔ لڑکی کے اس طرح کہنے پر میرے بھائی نے اس کے چہرہ کی طرف نگاہ بھر کر دیکها۔ وہ اس کو اداس اور مرجھائی ہوئی نظر آنے لگی۔ فکر نہ کریں آپ کے والد ٹھیک ہو جائیں گے۔ لڑکی یہ سن کر چپ رہی۔ اس نے کسی لفظ کی بھی تردید نہ کی۔ مگر جب جلیل چلنے لگا تو بولی۔ فکر کیوں نہ کروں۔ اکیلی جو ہوں، کوئی بات کرنے والا بھی نہیں ہے۔ کیا بات کرنا چاہتی ہو؟ انسان جو اکیلا ہو کیا باتیں کرتا ہے؟ دکھ سکھ ہی بانٹنا ہے لیکن یہاں تو دکھ بانٹنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ دیواروں سے باتیں کرتی ہوں۔ وہ بھی جواب نہیں دیتیں، چپ ہی رہتی ہیں۔ لڑکی نے دانستہ ایسے فقرے کہے کہ جلیل قدم رک گئے۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ آسیہ کی آنکھیں آنسوئوں سے بھیگی ہوئی تھیں۔ بھائی کو دھچکا سا لگا اور دکھ کی ایک غیر محسوس لہر ان کے دل میں دوڑ گئی۔ آپ مجھے بتا دیجئے اپنا دکھ آج نہیں تو کل بتادوں گی۔ جب آپ کے پروفیسر صاحب ڈاکٹر کے پاس ہوں گے۔ چھ بجے شام کو اس وقت ان کـ آنے کا ڈر ہے، نہیں بتاسکتی۔ کچھ دن گزر گئے جلیل سر کے گھر کی طرف نہ گیا۔ تاہم اس کا دل بے حد پریشان رہنے لگا۔ آخر آسیہ نے ایسے کیوں کہا۔ اس کو کیا دکھ تھا کہ بتانا چاہتی تھی اور دوبارہ آنے پر اصرار بھی کیا تھا۔ اس کی دانست میں وہ ہمارے استاد کی لڑکی تھی اس لئے جلیل کوئی غلط خیال بھی اس کے لئے دل میں نہ لانا چاہتا تھا۔ وہ پروفیسر صاحب کا دل احترام کرتا تھا۔ اگرچہ آسیہ جلیل کی ہم عمر تھی، خوبصورت بھولی بھالی سی، وہ اس کو اچھی بھی لگی تھی مگر استاد و شاگرد کا رشتہ زیادہ مکرم و مقدس تھا، جس کا پاس رکھنا لازم تھا۔ سوچا کہ جو بھی مسئلہ آسیہ کا، ہے سے مگر استاد کے علم میں لائے بغیر یا ان کی غیر موجودگی میں وہاں اسے نہ جانا چاہئے۔ میں جان گئی کہ میرا بھائی تجسس کے مارے پریشان ہے۔ وہ بیٹھے بیٹھے مجھے کہتا عقیلہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آسیہ کو کیا غم ہے۔ اسے ایسا کون سا دکھ ہے کہ یہ لڑکی اپنا دکھ ایک اجنبی کو بھی بتانے پر تیار ہے۔ شاید اس کو کسی غمگسار کی ضرورت ہے۔ وہ تنہا رہتی ہے تو تنہائی سے پریشان رہتی ہوگی۔ یقیناً پروفیسر صاحب نے بھی پابندی لگائی ہوئی ہے۔ باہر آتی جاتی نہ ہوگی۔ آسیہ کی اگر ماں موجود ہوتی یا کوئی اور رہتا ہوتا ضرور ان کی ملازمہ ان کا بھی ذکر کرتی۔ وہ اکیلی ہی ہے اور اکیلے پن کا تو دکھ انسان کو دیمک کی طرح کھانے لگتا ہے۔ میں نے اپنی ناقص عقل عقدے کا حل سے نکال لیا۔ دو ہفتہ گزر گئے ، کالج کھلے ، جلیل جانے لگا مگر سر غیر حاضر تھے۔ پتا چلا کسی وجہ سے کالج نہیں آرہے۔ چھٹی پر ہیں۔ ظاہر ہے وجہ ان کی بیماری تھی تبھی ایک دن فکرمند ہوکر جلیل ان کے گھر چلا گیا۔ سر واقعی گھر پر نہ تھے۔ آسیہ ہی اوپر کی منزل سے اتر کر آئی، در کھولا اور دروازے پر کھڑے ره کر دو چار باتیں کیں۔ آسیہ کے بلانے کے باوجود بھائی ضروری کام کا بہانہ کرکے گھر کے اندر نہ گیا اور کھڑے کھڑے دوچار باتیں کرلیں۔ چلتے وقت آسیہ نے وعدہ لیا دوباره آنا مگر اس وقت جب پروفیسر گھر پر نہ ہوں کہ کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔ جلیل نے وعدہ کیا اور چلا آیا۔ دو چار دن گزرے کہ بھائی کو آسیہ کا وعدہ یاد آیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے قدم اپنے استاد کے گھر کی جانب اٹھ گئے۔ یہ ہر نوجوان کی تمنا ہوتی ہے کہ کوئی اس کو چاہے اور یہ پہلی بار تھی کہ جب جلیل نے کسی لڑکی میں دلچسپی لی تھی۔ آسیہ خود بھی اس میں دلچسپی لے رہی تھی۔ بھلا پھر کیسے وہ اس کی توجہ کا جواب چاہت سے نہ دیتا۔ اب یہ سلسلہ چل نکلا، جب پروفیسر صاحب گھر پر نہ ہوتے جلیل ان کے گھر آسیہ کے اصرار پر جاتا۔ اب نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے قدم ان کے گھر کی طرف رواں دواں ہوجاتے تھے۔ اس سے مل کر عجب طرح کی تمانیت محسوس ہوتی۔ اس کا جی چاہتا کہ اپنی اس پر مسرت کیفیت کا اظہار کردے جو اس کو آسیہ سے مل کر ہوتی تھی مگر استاد کا لحاظ پھر مانع آجاتا۔ وہ اپنے ضمیر سے بھی شرمندہ ہونا نہ چاہتا تھا اور اس لڑکی کا دل بھی توڑنا نہ چاہتا تھا۔ کئی بار آسیہ نے گھر کے اندر بیٹھنے کو کہا مگر اس نے اس کے ساتھ اکیلے کمرے میں بھی بیٹھنے سے احتراز کیا۔ ان کی باتیں دروازے پر ہی ہوتی تھیں۔ تاہم ان کی باتوں میں لگاوٹ کا جذبہ ضرور پوشیدہ تھا۔ آسیہ بہت زیادہ بے قرار نظر آنے لگی۔ وہ شدت سے جلیل کا انتظار کرتی، دوبارہ آنے کا وعدہ لیتی، ایسے وقت آنے کو کہتی جب پروفیسر کالج ہوتے۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ جلیل کی محبت میں گرفتار ہوچکی تھی تاہم میرے بھائی کی احتیاط کے باعث دونوں کسی برائی سے دور تھے۔ آسیہ نے بے قراری کا یہ حل نکالا کہ پہلے محبت نامے تحریر کرکے رکھ لیتی اور جب جلیل کو بلاتی وہ محبت نامے دے کر کہتی کہ اس کو پڑھ کر جواب لکھ دینا تاکہ جب میں تنہا ہوں تو ان سے دلی سکون پاسکوں۔ اس

اس قدر اصرار کیا، قسمیں دیں کہ جلیل بھی اس کے محبت ناموں کا جواب اسے دینے لگا۔ یہ خطوط کا تبادلہ بھی دروازے پر ہی ہوتا اور وہ گھر کے اندر قدم نہ رکھتا تھا۔ تبھی آسیہ کو ملاقات . میں تشنگی محسوس ہوتی۔ وہ کہتی جب تم گھر کے اندر آئو گے تب میرے بے چین دل کو تشفی ہوگی۔ ایسی ادھوری ملاقات سے تو بے قراری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ سے ان کی لڑکی کا آسیہ کی ایسی حالت دیکھ کر جلیل کا پتھر دل موم کی طرح پگھلنے لگا۔ اس کہا کہ آسیہ میرے بغیر نہیں رہ سکتی۔ تم امی سے بات کرو کہ وہ میری اس کے ساتھ شادی کردیں اور پروفیسر صاحب شتہ مانگ لیں۔ ایسا نہ ہو وہ اس کی شادی کہیں اور کردیں۔ میں نے والدہ بات کی۔ وہ بولیں۔ پروفیسر ہم سے خوشحالی میں دو چند ہیں۔ معاشرے میں ان کی عزت بھی بڑھ کر ہے۔ کیا خبر وہ ہم کو اپنے لائق سمجھیں کہ نہ سمجھیں۔ اچھا ہے پہلے جلیل تعلیم مکمل کرلے، لڑکا برسر روزگار ہوتو رشتہ ملتا ہے۔ یہ بات جلیل کے لئے قابل قبول نہ ہوئی، بولا۔ اماں تو ہمیشہ دور کی کوڑی

لاتی ہیں۔ بھلا اتنے دن کب پروفیسر صاحب انتظار کریں گے۔ وہ کسی بھی وقت بیٹی کا رشتہ طے کر بیٹھیں گے، ان کو رشتوں کی کیا کمی ہے، جبکہ آسیہ خوبصورت بھی ہے اور کم عمر بھی۔ میں نے کہا۔ تم خاطر جمع رکھو، پریشان مت ہو۔ میں کوشش کرتی ہوں۔ میں نے کوشش کی۔ آپا اور بہنوئی کو بلوایا اور سب رام کہانی بتاکر بہنوئی صاحب سے کہا کہ آپ بھی پروفیسر ہیں، ان کے ہم پیشہ ہیں، آپ جاکر ان سے آسیہ اور جلیل کے رشتے کی بات کریں۔ امی میں تو اتنی جرأت نہیں ہے۔ آپا اور بہنوئی جب رشتے کی بات کرنے گئے تو مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ پروفیسر صاحب بہت خوش ہوکر ملے اور ہم کو اوپر کی منزل ر لے گئے۔ مگر گھر کا نقشہ ہی اور تھا۔ یہ آسیہ کا بیڈ روم تھا۔ مگر وہاں وہ نہیں تھی۔ تبھی میں نے پوچھا۔ سر آپ کی بیٹی کہیں گئی ہوئی ہیں؟ کہنے لگے۔ بیٹی؟ کون بیٹی؟ میری تو کوئی بیٹی نہیں ہے۔ تو کیا آسیہ آپ کی بھتیجی ہے۔ وہ میری بیوی ہے اور میکے گئی ہوئی ہے۔ آپ لوگوں کو اوپر اس وجہ سے لایا ہوں کہ آپ ہمارے لئے چائے بنائیں کیونکہ کچن اوپر ہے۔ انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ میں ان کی بات سن کر حیران ہوگئی۔ سوچا اے کاش ہم یہاں نہ آتے۔ ہمارے استاد محترم کی بیوی اور جلیل بھائی کی اس کے ساتھ محبت کی پینگیں۔ میرا رنگ زرد پڑ گیا۔ پروفیسر صاحب نے مجھے غور سے دیکھا اور بولے بیٹی کیا بات ہے؟ کوئی پریشانی ہے تو بتائو۔ اس پر میرے بہنوئی نے کہا۔ پروفیسر صاحب ہم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہم تو جلیل کے لئے رشتے کی بات کرنے آئے تھے۔ رشتے کی بات کرنے ؟ ہاں کیونکہ اس کو نہیں معلوم تھا کہ آسیہ بی بی آپ کی بیوی ہیں۔ اس تو یہی کہا تھا کہ آسیہ آپ کی بیٹی ہے۔ خدا جانے یہ بات بہنوئی نے کیوں ان سے کہہ دی کہ ہم اور خجل ہوگئے۔ انہوں نے کہا یہ اس نے کیسے سمجھ لیا۔ خود آسیہ نے یہی اسے باور کرایا ہے۔ نے دور اندیشی سے کام لینے کی سیده سبھائو بات کہہ دی۔ جلیل کا آسیہ سے کیا تعلق؟ میں جلیل کو گولی مار دوں گا۔ تعلق تو ہے تبھی ہم کو اصرار کرکے بهیجا ہے۔ کیا ثبوت ہے اس بات کا۔ ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ پرس سے خطوط کا پلندہ نکالا جو میں اس خطرے کے تحت جلیل کی الماری سے اٹھا کر ساتھ لے آئی تھی کہ اگر یہ برہم ہوئے یا انکار کیا تو ان کی صاحبزادی کے خطوط سامنے رکھ دوں گی کہ کیا اب بھی آپ میرے بھائی کو مجرم اور قصور وار سمجھیں گے جبکہ قصور وار تو آسیہ خود ہے۔ مجھ نادان کو کیا خبر کہ میں بھائی کی محبت میں کیسا احمقانہ جذباتی قدم اٹھانے چلی ہوں۔ میری نیت تو ہر حال میں آسیہ کا رشتہ حاصل کرنے کی تھی۔ کیا خبر تھی جس کو جلیل ان کی بیٹی سمجھتا ہے دراصل وہ ان کی دوسری بیوی ہے کہ عرصہ ہوا پہلی بیوی مرچکی تھی۔ خطوط دیکھ کر سر کا چہرے سرخ ہوگیا اور ان کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگا۔ میں نے خوفزدہ ہوکر کہا۔ سر ، جلیل نہیں جانتا تھا کہ آسیہ آپ کی بیوی ہیں اور نہ ہی آسیہ نے یہ غلط فہمی دور کی۔ بہنوئی بھی خجل ہوگئے۔ کہا۔ پروفیسر صاحب معافی چاہتے ہیں، غلط فہمی ہوگئی تھی۔ دراصل آپ کی بیوی نے بھی اپنا اور آپ کا اصل رشتہ ظاہر نہیں کیا۔ غلط فہمی کا مسئلہ نہیں ہے ، عمروں کا فرق ہے۔ ایسی غلط فہمی ہوجاتی ہے مگر ان خطوط میں جو باتیں لکھی ہوئی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ میرے سے ہمکنار

ہونہار شاگرد نے بھی میری عزت میں نقب لگانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔ افسوس جس لڑکے کو میں نے اتنی جانفشانی د کامیابی کرایا اسی نے میری عزت کو خاک میں ملایا۔ بہنوئی نے کہا۔ پروفیسر صاحب عمروں کے فرق کی وجہ سے یہ غلط فہمی معمولی بات ہے۔ آپ ہمیں معاف کردیجئے۔ اگر حقیقت کا علم ہوجاتا تو ہم کیوں یہاں ایسی بات کہنے آتے۔ وہ اس قدر غمزدہ تھے کہ سبھی کا جی چاہتا تھا زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں سماں جائیں۔ بولے۔ ٹھیک ہے آپ کی بات میں نے مان لی۔ میری بیوی کا ہی قصور زیادہ ہے۔ غلط فہمی اسی نے پیدا کی ہے۔ میرے اور اپنے رشتے کو جلیل پر واضح کردیتی تو یہ غلط فہمی جنم نہ لیتی۔ اصل مجرم وہی ہے لیکن ایک شاگرد کو بھی زیب نہیں دیتا جس کنویں سے فیض حاصل کرے اسی کو گندہ کردے۔ بیوی ہو کہ بیٹی... اگر بیوی مرد کی عزت ہوتی ہے تو کیا بیٹی نہیں ہوتی؟ اگر میری بیٹی بھی ہوتی تو میری غیرموجودگی میں اس سے ملاقاتیں درست بات ہرگز نہیں تھی۔ ہم تو معذرت کرکے آگئے مگر پروفیسر صاحب کی پرسکون دنیا میں ایسی آگ سلگ گئی کہ انہوں نے نہ صرف آسیہ کو میکے بھجوا دیا بلکہ کچھ دنوں بعد اس کی جدائی کا دکھ نہ سہہ سکے تو خودکشی کرلی۔ شاید وہ آسیہ سے بہت محبت کرتے تھے تاہم کسی کو امید نہ تھی کہ ایک پڑھا لکھا اور ادھیڑ عمر شخص اتنا انتہائی قدم اٹھالے گا۔ سچ ہے کہ انسان بظاہر جس قد ر مضبوط نظر آتا ہو بعض معاملات میں وہ گرتی دیوار جیسا ہوجاتا ہے۔

 


Post a Comment

0 Comments