Aik Sir Basta Raaz Teen Auratien Teen Kahaniyan urdu inpage

 

Aik Sir Basta Raaz  Teen Auratien Teen Kahaniyan urdu inpage

Aik Sir Basta Raaz  Teen Auratien Teen Kahaniyan urdu inpage

میرا تعلق ایک بڑی جاگیر دار فیملی سے تھا۔ جس کا اپنے علاقہ میں خوب اثر ورسوخ تھا۔ میرے دادا اور نانا دونوں ہی اپنے وقت کے کامیاب سیاستدان رہے تھے۔ یوں کہنا چاہئے سیاست ہماری فیملی کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ ہمارے ملک میں سیاست ایک بازی ہے جو الیکشن جیت جائے، اس کی لاٹری نکل آتی ہے۔ تبھی سیاست سے وابستہ افراد الیکشن جیتنے کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں، بیشتر کا مقصد عوام کی خدمت کرنا نہیں ہوتابلکہ دولت کمانا ہوتا ہے۔

اسی سیاسی سوچ نے ہمارے گھرانے کوتباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ ہوایوں کہ الیکشن میں میرے چچا نے جس پارٹی سے حصہ لیا، وہ ناناجان کی مخالفت میں پیش پیش تھی۔ نانا نے ہمارے دادا کو کہا کہ آپ اپنےبیٹے کو کہیں کہ وہ اس طرف سے الیکشن نہ لڑے کیونکہ یہ ہمارے مخالف لوگ ہیں مگر دادا جان کو اپنا مفاد اسی میں دکھائی دیا کہ ان لوگوں کو ساتھدیں جو نانا جان اور ماموں کے سیاسیحریف بلکہ دشمنی کی حد تک مخالف تھے۔ بس یہاں سے بات بگڑ گئی۔ ہمارا خاندان دولتمند ہی نہیں، روشن خیال بھی تھا جہاں ہم لوگ روایات پسند تھے وہاں لڑکیوں اور

لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا بھی رواج تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے یہاں دولتاور تعلیم کی کمی نہیں تھی۔ تبھی ہمار اشمار شہر کے معززین و امیر کبیر خاندانوں میں ہوتا تھا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ نانا اور دادا جان میں الیکشن کی وجہ سے جھگڑا چل پڑا۔ باتہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ گئی کہ میرے نانا امی جان کو گھر لے آئے اور واپس سسرال نہ جانے دیا۔ نانا جان کی بات دادا ابو نے نہ مانی تو انہ وں نے بیٹی کو گھر بٹھا لیا

جس پر دادا نے میرے والد صاحب کو مجبور کر دیا کہ بیوی کو طلاق دے دو۔ بابا جان میری امی کو طلاق دینا نہ چاہتے تھے کیونکہ ان کو بیوی سے بہت محبت تھی لیکن الیکشن کے جھگڑے کی وجہ سے تلخی اتنی بڑھی کہ صلح کی گنجائش نہ رہی۔ نانا کہتے تھے کہ تم لوگ میرے دشمنوں کو ووٹ دے رہے ہو تا کہ وہ جیتنے کے بعد مضبوط ہو کر ہم پر بل پڑیں۔ یوں جھوٹی انا کی خاطر دادا جان نے میرے باپ کو مجبور کر دیا کہ وہ بیوی کو طلاق دے دیں۔ بابا جان نے مجبوراً امی کو طلاق دی لیکن بچے اپنے پاس ہی رہنے دیئے۔ امی کی طلاق کے چند ماہ بعد میں نانا جان کے گھر پیدا ہوئی تو دادا جان نے مطالبہ کیا کہ ہماری نومولود بچی کو بھی ہمارے حوالے کر دو... ناناجان نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ میں ابھی بہت چھوٹی تھی ، میری زندگی کا دار و مدار ماں کے دودھ پر تھا۔

دادا جان بہت آنا پرست تھے۔ وہ کب ہار ماننے والے تھے۔ اپنے اثر ورسوخ کے گھمنڈ میں انہوں نے عدالت میں کیس دائر کر دیا مگر وہ یہ کیس ہار گئے کیونکہ حج نے امی کے حق میں فیصلہ دے دیا اور حکم دیا کہ بچی کو سات سال تک ماں سے جدا نہیں کیا جائے گا۔ یوں میں سات برس تک اپنی امی کے ساتھ رہی۔ اس دوران نانا اور ماموں نے میری والدہ پر کئی بار زور ڈالا کہ وہ دوسری شادی کرنے پر آمادہ ہو جائیں مگر انہوں نے ہر بار انکار کر دیا۔ ان کو میری جدائی کسی صورت گوارا نہ تھی۔

ادھر دادا کب آرام سے بیٹھنے والے تھے، جو نہی میں سات برس کی ہوئی ، انہوں نے ایک بار پھر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ تین سال متواتر وہ میری واپسی کا مطالبہ کرتے رہے۔ کئی طرح سے دبائو ڈالا۔ جرگے ، پنچایت، عدالت غرض ہر حربہ استعمال کیا۔ بالآخر میں گیارہ برس کی عمر میں والد صاحب کے پاس آگئی۔ باباجان کے گھر میں میرا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا۔ میری دیکھ بھال ایک آیا کے ذمے تھی لیکن یہ قدرتی بات تھی کہ میں اپنی ماں کو نہیں بھول سکی۔ ہر وقت ان کو یاد کر کے روتی تھی۔ بابا کے گھر میں میرے ساتھ کھیلنے والا بھی کوئی نہ تھا، میں کس سے باتیں کرتی اور اپنا حال دل بیان کرتی۔ دونوں بڑی بہنیں اور بھائی مری میں پڑھ رہے تھے اور ہوسٹل میں رہتے تھے۔ وہ صرف چھٹیوں میں گھر آیا کرتے تھے۔ باباجان نے دوبارہ شادی نہ کی حالا نکہ دادا اور دادی نے بہت زور لگایا۔ تایا، چا بھی مشورہ دیتے تھے کہ دوسری شادی کر لو مگر بابا جان میری ماں سے محبت کرتے تھے ، ان کو بھلا نہیں سکے۔ اماں کو طلاق دینے کے بعد بابا جان کی زندگی ادھوری ہو گئی جیسے ہر خوشی کھو گئی ہو۔ وہ ہر کسی سے لا تعلق ہوتے گئے جبکہ چچا نے خوب ترقی کی۔ کئی بار الیکشن جیتا اور اعلیٰ عہدے پائے۔ وہ ایک کامیاب زندگی بسر کر رہے تھے اور

خاندانی دولت میں ڈھیروں اضافہ کر رہے تھے جبکہ والد صاحب ایک درویش منش آدمی بن کر رہ گئے۔ باباجان کی سوچ ہمارے خاندان کے ہر فرد سے قطعی مختلف تھی۔ وہ دولت سے زیادہ پیار کو اہمیت دیتے تھے ، جب انہوں نے امی جان کو طلاق دی، وہ اعلیٰ عہدے پر تھے۔ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ زندگی کی ہر دلکشی سے بے نیاز ہو گئے۔ میری بہنوں اور بھائی کو بھی دادا اور چچا سنبھال رہے تھے۔ وہی ان کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ٹھہرے۔ بیوی سے جدائی کے بعد باباجان نے اپنے بچوں کا خیال رکھنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ مری بلز پر دادا اور تایا چا ہی ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔ ان دنوں دادا کا کار و بار روز به روز ترقی پر تھا۔ انہوں نے چھوٹے بیٹے کی سیاسی پوزیشن سے خوب فائدہ اٹھایا اور کاروبار دوسرے ملکوں تک پھیلا دیا۔ ساتھ ہی بابا جان کو بھی بیرون ملک بھجوادیا تا کہ وہاں جا کر اپنی سابقہ بیوی اور پچھلی زندگی کو بھول جائیں لیکن یورپ جاکر بھی بابا کی زندگی بہتر نہ ہو سکی۔ وہ کاروبار کو بھی صحیح طرح سے سنبھال نہ سکے۔ جب انسان کو دولت کی ہوس نہ ہو ، وہ کاروبار بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ امی کی شادی ماموں نے کہیں اور کر دی۔ بابا نے سنا تو اس بات کا صدمہ کیا اور بیمار ہو گئے مگر اب دشمنی گہری ہو چکی تھی۔ وہ کسی طور میری ماں سے نہیں مل سکتے تھے۔ پہلے سے ہی نانا اور ماموں نے اس امر کو محال بنادیا تھا۔ خدا جانے امی کس حال میں تھیں۔ اپنے بچوں اور ان کے باپ کو بھلا چکی تھیں یا نہیں، یہ انہی کو پتا تھا۔ میری بہنیں اور بھائی اپنے حال میں مست تھے۔ مگر میں ماں کے پاس تقریبا گیارہ برس رہی تھی، اس لیے ان کو نہیں بھول سکتی تھی۔ رات کو اٹھ اٹھ کر انہیں یاد کرتی اور روتی تھی۔ گیارہ برس کی بچی ماں سے کتنی اٹیچ ہو سکتی ہے آپ خود تصور کر سکتے ہیں۔ یہ ایسی عمر ہوتی ہے جب بچی کو ماں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے مگر ظالم مفاد پرست اپنوں نے ہی ممتا کو بچوں اور بچوں کو ممتا سے جدا کر رکھا تھا۔ سچ ہے دولت اور اقتدار کی ہوس بہت بری بلا ہے۔ یہ انسان سے انسانیت اور آدم سے آدمیت چھین لیتی ہے۔ جن دنوں میں پانچویں میں تھی، میرے بھائی شمر کو بیرون ملک پڑھنے کے لیے بھجوادیا گیا۔ میں اپنے بھائی سے محبت کرتی تھی۔ وہ چھٹیوں میں گھر آتا، بہت خوش ہوتی۔ اب اور بھی تنہا اور چپ چپ رہنے لگی۔ اسکول میں کسی سے میری دوستی نہ ہوئی۔ بس ہر وقت پڑھائی میں مصروف رہتی تھی۔ یہی سبب تھا کہ میری تعلیمی کار کردگی بہت اچھی تھی اور ذہین طالبات میں میر اشمار ہوتا تھا۔ میٹرک کے بعد میں نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ اس دوران میری بڑی بہن کی شادی ایک وزیر کے بیٹے سے ہو گئی۔ وہ امریکہ چلی گئی میں اور تنہا ہو گئی۔ مجھ کو بڑی بہن کا جو سہارا تھاوہ بھی نہ رہا۔ میں نے ایف ایس سی میں بہت محنت کی اور اچھے نمبر لیے۔ میرا میرٹ بن گیا۔ میں میڈیکل میں داخلہ لینا چاہتی تھی۔ لیکن تایا جان کو خاندان کی لڑکیوں کا ڈاکٹر بننا پسند نہیں تھا۔ انہوں نے دادا کو کہہ کر میرا میڈیکل کا داخلہ رکوادیا۔

بابا جان چاہتے تھے کہ میں مقابلے کا امتحان پاس کروں اور میں سخت دلبر داشتہ تھی۔ اسی افسردگی میں ، میں نے پڑھائی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا مگر میری بہن امینہ نے سمجھایا کہ بے وقوف مت بنو، پڑھائی جاری رکھو، بابا جان کی خواہش پوری کرو اور بعد میں مقابلے کے امتحان کی تیاری کر لینا۔ امینہ باجی کے ہمت دلانے سے دوبارہ کالج جانے پر رضامند ہو گئی اور بی اے کے امتحان کی تیاری کرنے لگی۔ اسی دوران امینہ کارشتہ تایا کے دوست کے بیٹے کے لیے آگیا۔ یہ لڑکا صحیح نہ تھا، شکل وصورت کا بھی گیا گزرا تھا۔ امینہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔ مگر اس رشتے سے تایا اور چا جان کے بہت سے سیاسی مفاد وابستہ تھے۔ انہوں نے امینہ کو مجبور کیا کہ یہ رشتہ قبول کرلے۔ وہ کسی طرح نہیں مانی، جب زیادہ مجبور کرنے لگے تو اس نے جذبات میں آکر زیادہ مقدار میں خواب آور گولیاں کھالیں۔ یوں میری بہن بھری جوانی میں اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی گئی۔ امینہ کی بے وقت موت کا مجھ کو حد درجہ صدمہ ہوا۔ اس کی صورت ہو بہو امی جان جیسی تھی بلکہ وہ ماں کی تصویر لگتی تھی۔ بابا جان اس کو بہت چاہتے تھے ، جب ان کو اطلاع ملی کہ امینہ نے خود کشی کرلی ہے تو وہ اپنا ذ ہنی توازن کھو بیٹھے۔ ان دنوں بابا جان امریکہ میں تھے ، ان کو وہاں علاج کے لیے اسپتال میں داخل کرادیا گیا۔ وہ خاموش رہتے اور ان پر خود فراموشی کی سی کیفیت طاری رہتی۔ ان دنوں میرا بھائی علی ان کے پاس تھا جو ان کو سنبھال رہا تھا۔ اس کو بھی امینہ کے مرنے کا سخت صدمہ تھا۔ لیکن یہ پتا نہیں تھا کہ اس کی بہن تایا اور چا کے زبر دستی شادی پر مجبور کرنے کی وجہ سے مری ہے۔ امینہ کا مزاج اپنے داد ا پر گیا تھا۔ وہ ضدی طبیعت کی تھی اور کسی کے فیصلے کو قبول کرنے سے قاصر تھی۔ اس نے جان دے دی مگر نا پسندیدہ رشتے کو قبول نہیں کیا۔ انہی دنوں کچھ مخالفین نے چا پر حملہ کر دیا۔ وہ تو بال بال بچ گئے لیکن دادا جان کو گولیاں لیں اور وہ جائے وقوع پر وفات پاگئے۔ یہ ایک اور صدمہ تھا۔ دادا جان میراخیال رکھتے تھے ، وہ بھی نہ رہے۔ میں کلی طور پر تایا اور چچا وغیرہ کے رحم و کرم پر رہ گئی۔ اب میں دن رات دعا کرتی کہ اپنی بڑی بہن اور علی کے پاس امریکہ چلی جائوں کیونکہ والد بھی وہاں تھے اور ان کو میری اشد ضرورت تھی۔ میں نے بھائی کو فون پر کہا کہ مجھے آپ لوگوں کے پاس آنا ہے۔ باجی شمینہ کو بھی کہا۔ ان لوگوں نے کوشش کر کے بلوا لیا۔ والد سے ملی، وہ بہت افسردہ تھے۔ مجھ کو گلے لگا کہ روپڑے ، تب میں نے جانا کہ وہ کتنے مجبور ہیں۔ ان کا علاج چل رہا تھا۔ اس لیے پاکستان نہیں آسکتے تھے۔ میں اور علی ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے کیونکہ وہ دن میں صرف ایک آدھ جملہ بولتے تھے اور بالکل نہیں مسکراتے تھے۔ جلد ہی میں نے سمجھ لیا کہ ان کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ بس ان کی ایک خیالی دنیا تھی جس میں وہ زندہ تھے اور اپنے ماضی کو ذہن میں دہراتے رہتے تھے۔ بیتے دنوں کی یادوں میں سکون پاتے تھے اور خیالوں میں ہماری ماں سے باتیں کرتے تھے۔

باباجان ماضی میں جی رہے تھے۔ اس طرح وہ خود بھی ماضی کا ایک حصہ بنتے جارہے تھے۔ ماں کے ساتھ گزرے ماہ و سال میرے باپ کا کل اثاثہ تھے۔ اب مجھ کو اندازہ ہوا کہ طلاق کتنی بری چیز ہوتی ہے اور یہ انسان کے جیون کو کیسے برباد کر دیتی ہے ،اسی لیے دین نے اس کو ایک ناپسندیدہ امر کہا ہے۔ باجی اور علی نے بہت چاہا کہ بابا جان دوسری شادی کر لیں مگر انہوں نے نہ کی۔ پارک میں بیٹھ جانا، گھنٹوں بیٹھے رہنا یا پھر لمبی واک اور مصوری، یہی ان کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ وہ زیادہ ترایسی تصاویر بناتے جو اداس لمحوں کا مظہر ہو تیں۔ اپنی تصویروں میں ڈل کلر ز استعمال کرتے ، کبھی خزاں رسیدہ پتوں کو پینٹ کرتے اور کبھی ڈوبتی شام کے مناظر کو کینوس پر اُتارتے تھے۔

والد صاحب شاعری بھی کرتے تھے مگر وہ اپنے اشعار کو چھپا کر رکھتے تھے۔ انہوں نے میری والدہ کی بے شمار پینٹنگز اور پورٹریٹس بنائیں جو اپنی جگہ شاہکار تھیں تاہم انہیں کبھی تصویری نمائش میں شامل نہ کیا۔ بابا کی عجیب و غریب طبیعت تھی۔ اتنی گہری خاموشی میں جیتے تھے کہ ان کو کوئی سمجھ نہیں پاتا تھا۔ ڈاکٹروں نے کافی خواب آور ادویات استعمال کرائی تھیں، جن سے ان کی یاد داشت پر گہرا اثر ہوا تھا۔ وہ بات کرتے کرتے بھول جاتے تھے اور کبھی کبھی تو چند لمحوں کے لیے اپنے بچوں تک کو پہچان نہیں پاتے تھے۔ ہم سب کا یہی خیال تھا، اگر وہ دوسری شادی کر لیتے تو پھر سے زندگی کی خوشیوں کی طرف لوٹ سکتے تھے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ملک میں ایک بار پھر الیکشن کی گہما گہمی ہو گئی۔ چچانے ہم سب کو پردیس سے بلوالیا۔ الیکشن کی ”کمپین “ میں میرے بھائی کو گولی لگ گئی۔ علی زخموں کی تاب نہ لا سکا۔ میری تو دنیا ہی اُجڑ گئی۔ شاید کہ وہ امینہ کی طرح بہت کم زندگی لے کر آیا تھا۔

باجی کو گہر اصدمہ ہوا مگر وہ شادی شدہ تھیں اور دو بچوں کی ماں تھیں۔ ان کی دنیا بسی ہوئی تھی۔ کچھ دن رہ کر اپنی دنیا میں واپس لوٹ گئیں مگر میں ماتم کے لیے اکیلی رہ گئی۔ پہلے ہی زندگی میں دُکھ بھرے تھے۔ اب تو امید کا آخری چراغ بھی گل ہو گیا۔ میری دنیا اندھیر ہو گئی۔ یہ اندوہناک خبر سن کر خدا جانے ماں کا کیا حال ہوا ہو گا۔ چونکہ ماں کی دوسری شادی دادا جان کے سیاسی مخالفین میں ہوئی تھی۔ ہم ان سے ملتے بھی نہیں تھے۔ کاش ان دنوں ماں سے مل سکتی،ان کے گلے لگ کر رو سکتی مگر میرے حواس چھن گئے اور کسی بات کا ہوش نہ رہا۔ اور چلانے مجھے اس باب کے امریکہ جانے کیا کہ میں نے ان کی جائداد کی وارث تھی۔ باچی ث تھی۔ باجی اپنا حصہ لے چکی تھیں۔ مگر میرے حصے کی جائداداب تایا اور چچا کے قبضے میں تھی۔ علی کی یاد ایک منٹ کے لیے دل سے نہیں جاتی تھی۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ میرا اور بابا کا خیال رکھتا تھا، اس کی جائداد بھی اب رشتے داروں نے سنبھال لی جس کی وجہ سے مجھ پر پابندیاں لگا دیں۔ میں کہیں نہیں آجا سکتی تھی۔ بابا اسپتال میں تھے جن کی دیکھ بھال ان کے دوست کر رہے تھے۔ جب میں رورو کر ادھ موئی ہو گئی تو تا پا نے مجھے پڑھنے کی اجازت دے دی۔ یوں میں نے یونیورسٹی جانا شروع کر دیا مگر یونیورسٹی ہمارے گائوں سے دور تھی لہذا میں وہاں ہوسٹل میں رہنے لگی تا کہ مقابلے کا امتحان دے سکوں۔ سبھی کہتے تھے کہ حسنہ بہت خوبصورت اور نیک سیرت لڑکی ہے۔ میں ایک ماڈرن اور متمول خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود ہمیشہ سادہ لباس پہنتی تھی۔ اس سادگی میں بھی انداز پر وقار تھا لہذا یونیورسٹی میں لوگ میری شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ اس دوران بہت سے لڑکوں نے میری جانب قدم بڑھانا چاہے مگر میں اپنی ذات کے خول میں ایسی بند تھی کہ کوئی آگے بڑھنے کی جرات نہ کر سکا۔ حتی کہ میرے ایک لائق کلاس فیلو نے مجھ کو زندگی کا ساتھی بنانے کی پیشکش کی تو میں نے صاف منع کر دیا کہ میں شادی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ اپنی خاندانی روایات میں جکڑی ہوئی ہوں۔ میں تعلیم مکمل کرنا چاہتی تھی۔ جس کی اجازت بڑی مشکل سے ملی تھی۔ میں اپنی تعلیم میں گم رہتی تھی کیونکہ مجھے نماز اور تلاوت قرآن میں سکون ملتا تھا۔ ہم نے ایم اے کے پیپر زدیئے تو سب لڑکیاں امتحان سے فارغ ہونے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو جانے لگیں۔اب

چند لڑکیاں ہوسٹل میں رہ گئیں تبھی تایا نے گاڑی بھجوائی اور میں ڈرائیور کے ساتھ گھر آگئی۔ گھر آکر پتا چلا کہ میں مقابلے کے امتحان کی تیاری نہ کر سکوں گی۔ تایا نے مجھ کو اخراجات کے لیے رقم دینی بند کر دی اور وہ میری شادی بھی نہ کرنا چاہتے تھے کہ کہیں میری جائداد ہاتھ سے نکل جائے۔ وہ چاہتے تھے کہ میر انکاح اپنے بیٹے سے کر دیں جبکہ وہ پہلے سے شادی شدہ تھا۔ علاج سے بابا جان کی حالت بہتر ہو گئی، وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے چا کو خط لکھا کہ میری بیٹی کو امریکہ بھیج دو تا کہ میں اسے اپنے پاس رکھ سکوں مگر تایا ابو نے بابا کو میرے بارے میں غلط باتیں لکھ بھیجیں اور یوں ان کو میری طرف سے بد ظن کر دیا۔ باباجو تھوڑے بہت ٹھیک ہوئے تھے ، اس صدمے سے پھر بیمار پڑ گئے۔ ان کو ذہنی امراض کے اسپتال بھیج دیا گیا۔

دو بچوں کی موت کے بعد میں ہی ان کا واحد سہارا تھی۔ ان کی محبت کی آخری نشانی تھی۔ میرے بارے میں غلط باتیں پہنچائی گئیں تو ان کی رہی سہی اُمید بھی ختم ہو گئی۔ انہوں نے تایا کو لکھا کہ اس غلط کردار کی بیٹی سے میرا کوئی واسطہ نہیں، آپ لوگ جہاں چاہیں اس کی شادی کر دیں۔ یوں تایا نے نہ مجھے مقابلے کا امتحان دینے دیا اور نہ والد کے پاس امریکہ جانے دیا۔ خدا کی مرضی تایا فوت ہو گئے تو جائداد کے کرتا دھرتا ان کے بیٹے ہو گئے جو شادی شدہ تھے اور اولادیں جوان تھیں۔ رہی سہی کسر انہوں نے پوری کر دی۔ وہ لوگ مجھ کو ز بر دستی گھر لے آئے۔ یہ وہ لوگ تھے۔ جنہوں نے میرے والد کا ہنتا بستا گھر اجاڑا اور ہم بچے عمر بھر والدین کی محبت سے محروم رہے۔ زندگی کی سختیاں سہتے سہتے میں جوان ہوئی تو ان کے لالچ اور خود غرضی نے میری زندگی کو بے رنگ کر دیا۔ میں جو صورت اور سیرت میں یکتا تھی۔ اپنی ذات کے حصار میں قید ہو کر رہ گئی۔ اپنی عقل اور ذہانت سے تعلیم کی منزلیں طے کیں تو انہوں نے میری پاکیزگی پر تہمتیں لگا دیں تاکہ میں معاشرے میں اپنا مقام نہ بنا سکوں۔ تب مجھ پر بھی بابا کی طرح افسردگی کے دورے پڑنے لگے۔ انہوں نے مجھ کو علاج کے بہانے مینٹل ہاسپٹل میں داخل کرادیا، جہاں خالی خالی نظروں سے سب کو دیکھتی تو وہ کہتے کہ حسنہ اب کبھی کسی کو نہ پہچان سکے گی اور میں سوچتی تھی کہ یہ دنیا کیسی جگہ ہے ؟ اچھا ہے جو میں کسی کو نہ پہچان سکوں۔ اب تو اپنوں کے ظلم برداشت کرتے کرتے میں اپنی ذات سے بھی بیگانہ ہو گئی ہوں۔ ہوش و حواس میں ہو کر بھی خود کو پاگل دیوانہ ظاہر کرتی ہوں۔ کم از کم اس طرح اپنوں کے مزید ظلم و ستم سے تو محفوظ ہوگئی ہوں۔ جب بھی کوئی گھر آتا ہے ، میرے رشتہ داران کو یہی بتاتے ہیں کہ اس کو کبھی کبھار پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم گھر کے لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ جب اس کو دورہ پڑے گا ہم حسنہ کو مینٹل ہاسپٹل چھوڑ کر آجائیں گے۔ میں نے بھی دل میں عہد کر لیا ہے کہ کسی سے کوئی بات نہ کروں گی۔ میں گھر والوں سے اب کلام ہی نہیں کرتی۔ ہر وقت خاموش رہتی ہوں۔ یہ مخاطب ہوں تو بس ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہتی ہوں، منہ سے کچھ نہیں کہتی۔ آج میری یونیورسٹی کی دوست فرحت آئی تو میں نے اس سے جی بھر کر باتیں کیں۔ ہم نے کمرہ بند کر لیا۔ میں نے فرحت کو بتایا کہ تایا چاکے گھر والے مجھے خطرناک سمجھتے ہیں۔ حالانکہ مجھے کوئی دورہ وغیرہ نہیں پڑتا۔ فرحت اس زمانے میں کھو گئی جب ہم دونوں ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ کہنے لگی تم سب سے زیادہ خوب صورت تھیں، مجھے بہت اچھی لگتی تھیں۔ تمہارا چہرہ اتنا معصوم اور پاکیزہ تھا کہ آنکھیں دیکھتی رہ جاتی تھیں۔ تم ان دنوں بھی بہت خاموش طبع اور اپنے خول میں بند رہنے والی ایک سنجیدہ ادا اس لڑکی تھیں۔ اپنی زندگی کے بارے میں دوسروں کو بتا کر ہمدردیاں حاصل کرنا تم کو پسند نہیں تھا، اسی لیے تم میں کشش تھی اور تم ایک سربستہ راز لگتی تھیں۔ اس وجہ سے میں نے تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ ہاں ... فرحت اب میں ایک سربستہ راز نہیں ہوں۔ تمہارے سامنے میری زندگی ایک کھلی کتاب ہے مگر دوسروں کے لیے شاید اب بھی ایک سربستہ راز ہوں۔ یہ کہہ کر میں نے اپنی کہانی اس کو دی کہ اسے پوسٹ کر دینا۔ اگر یہ شائع ہو گئی تو بہت سوں کو پتا چل جائے گا کہ لوگ دیکھنے میں کچھ اور ہوتے ہیں مگر ہوتے کچھ اور ہیں۔

 


Post a Comment

0 Comments