خالہ سے مجھے ماں کی خوشبو آتی تھی تبھی جب کوئی دکھ ملتا، ان کو یاد کرتی۔ ایک روز خالہ ملنے آئی تو سوتیلی ماں بچوں سمیت میکے گئی ہوئی تھی اور میں گھر میں اکیلی تھی۔ خالہ سے لپٹ کر خوب روئی، ہاتھ جوڑے کہ خدارا اپنے ساتھ لے جائو، مجھ میں اب ظلم سہنے کی تاب نہیں ہے۔ شام کو ماں آگئی۔ خالہ نے مجھے ساتھ لے جانے کی بات کی۔ وہ بولی۔ بے شک لے جائو کوئی اعتراض نہیں۔ میں تو مرحوم شوہر کی اولاد سمجھ کر پال رہی تھی مگر تم کو یہ لکھ کر دینا ہو گا کہ نوشین اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ جا رہی ہے۔ اور یہ بھی کہ اس کو باپ کی جائداد سے کوئی حصہ نہ ملے گا۔ میرا بھائی قادر جو پاس ہی بیٹھا تھا اس نے کہا۔ ہاں خالہ ماں ٹھیک کہتی ہے۔ ٹھیک ہے، میں اس کو ہر شرط پر لے جائوں گی۔ لائو کاغذ اور قلم جو کہتے ہو لکھے دیتی ہوں۔ اگل صبح بهائی کچھ کاغذات بنوا کر لے آیا۔ میں نے سائن کردیے، یوں انہوں نے مجھے خالہ کے حوالے کردیا۔ بات وہی ہوئی جس کا خالہ کو ڈر تھا، مجھے دیکھتے ہی خالو نے تیوری چڑھا لی اور بیوی سے بولے۔ تم اس کو کیوں ساتھ لے آئی ہو. جبکہ اس کی ذمہ داری اٹھانے والے اس کے بھائی موجود ہیں۔ ماں سوتیلی ہے تو کیا بهائی نے تو اس کو در بدر نہیں ہونے دیا ہے نا۔ جو بھی ہے میاں جی ... ہیں تو وہ سوتیلے۔ نوکرانی بنا کر رکھا ہوا ہے۔ فرخنده بیگم! میں پرائی جوان اولاد کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا۔ تم اس کو اس کے وارثوں کے حوالے کر آئو۔ خالو نے دو ٹوک فیصلہ سنا دیا۔ آب خالہ پریشان تھیں اور میں سوتیلی ماں کے پاس رہنے کو تیار نہ تھی۔ پھوپھیاں مجھے اپنے گھر رکهتی نہ تھیں۔ مجھ پر سوتیلی ماں کو ظلم ڈھاتے دیکھ کر بھی چپ سادھے رہتی تھیں۔ خالہ نے بہت سوچا۔ بالآخر مجھے میرے والد کے ایک کزن کے گھر لے گئیں۔ جن کو سب میاں جی بلاتے تھے۔ ان کی بیوی سے خالہ نے میری بپتا سنا کر کہا کہ صبیحہ بیگم اس کو تم اپنے پاس رکھ لو اور بیٹی بنا لو۔ بیوی نے میاں جی سے بات کی اور انہوں نے مجھے اپنے گھر ٹھہرانا قبول کر لیا۔ بہت شریف، دین دار اور معزز لوگ تھے۔ انہوں نے یتیم جان کر مجھے بیٹی بنا کر اپنے گھر ركهنا منظور کیا تھا۔ اس گھر میں مجھے ایسا پیار ملا کہ میں سارے دکھ بھول گئی۔ میاں جی کی بیوی بہت خدا ترس خاتون تھی۔ میں ان کو ماں جی کہتی۔ وہ مجھ کو اچها رکهتیں مگر میری نگرانی بھی کرتیں۔ میاں جی کے دو بیٹے تھے۔ بیٹی کوئی نہ تھی، سو ان کے بیٹے مجھے بہن کہہ کر پکارتے۔ میں بھی ان کو بھائیوں جیسا ہی سمجھتی تھی۔ بمشکل چھ ماہ گزرے ہوں گے کہ ایک دن جبکہ میاں جی اور ان کی بیگم کسی فوتگی میں گئے ہوئے تھے میں نے فون اٹھا لیا... اور میری بدنصیبی کا آغاز ہو گیا، جبکہ اس گھر کا یہ دستور تھا کہ مرد جب گھر میں موجود ہوتے تب عورتیں فون نہیں اٹھاتی تھیں۔ البتہ جب مرد موجود نہ ہوتے ماں جی فون سنتی تھیں۔ میری آواز پہلی بار اس فون سے کسی باہر کے شخص نے سنی تھی۔ کسی نے پوچها تها۔ فواد گھر میں ہیں۔ جی نہیں وہ گھر میں موجود نہیں۔ میں نے جواب دیا۔ فواد، میاں جی کے بڑے بیٹے کا نام تھا۔ تھوڑی دیر بعد پھر گھنٹی بجی۔ مجهے غصہ آگیا کیونکہ وہی سوال اس نے دوبارہ کیا تھا۔ فواد صاحب گهر پر ہیں ؟ بتا تو دیا ہے کہ نہیں ہیں پھر دوباره فون کیوں کیا ہے۔ میں نے سخت لہجے میں کہا۔ معاف کر دیں صرف اتنا بتا دیں آپ کون ہیں؟ میں خادمہ ہوں ان کی۔ یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔ خدا جانے اس شخص کی آواز میں کیسا سحر تها کہ اس کی آواز مجھ سے بھلائی نہ جاتی تھی۔ نہیں جانتی تھی وہ کون تھا اور کیوں اس نے فواد کو فون کیا تھا۔ اب میرے کان ہر وقت فون کی گھنٹی پر لگے رہتے تھے۔ جب انسان مسلسل ایک آرزو کرتا رہے وہ برمی آتی ہے۔ ایک روز پھر مجھے موقع ملا گیا۔ میں بال کمرے میں فون کے پاس کھڑی تھی کہ گھنٹی بجی۔ میں نے جهٹ سے فون اٹھا لیا۔ وہی آواز کانوں میں گونجی، اس کا سحر مجھے اپنی جانب کھینچنے لگا۔ مجھے نہیں لگتا کہ تم خادمہ ہو۔ سچ بتا دو کون ہو تم؟ میاں جی کی رشتہ دار ہو؟ آپ جو سمجھ لیں رشتہ دار یا خادمہ لیکن آپ کو اس سے کیا؟ کیوں فون کیا ہے آپ نے؟ تب اس نے بتایا کہ اس کا نام گل زیب ہے اور میاں جی نے کچھ سامان بھجوانا تھا، راولپنڈی سے پشاور. اسی بارے میں فون کیا تھا۔ میں نے میاں جی کو تو نہیں بتایا لیکن فواد کو بتا دیا کہ کسی گل زیب کا فون آیا تھا اور وہ سامان بھجوانے کا پوچھ رہا تھا۔ ہاں۔ دکان کا کچھ سامان اس کے ٹرک سے پشاور بھجوایا تھا، میں فون کر لوں گا۔ مجھ کو گل زیب کی آواز کے سحر نے جکڑ لیا تھا۔ اس آواز کے ساتھ ذہن نے ایک انجانا رشتہ قائم کر دیا۔ اس آواز کو سننا چاہتی تھی۔ اب جب لالہ جی فون پر کسی سے بات کرتے۔ میں کان لگا لیتی اور ان کی باتیں سنتی۔ ایک دن میں نے سنا۔ لالہ فواد کہہ رہے تھے۔ گل زیب میرے سامان میں کراکری بھی ہے۔ احتیاط سے ڈبے اتروا لینا۔ یہ سامان کوہاٹ سے لاہور مارکیٹ جانا ہے۔ ان کی باتوں سے پتا چلا کہ گل زیب کا ٹرک ہے جو سامان برداری کا کام کرتا ہے۔ اتنا تو اس کے بارے معلوم ہو گیا لیکن اس بات کا علم مجھے تو کیا لالہ جی کو بھی نہیں تھا کہ اس سامان برداری کے پیچھے یہ شخص کالا دهنده بھی کرتا ہے۔ ایک دن پھر مجھے فون اٹھانے کا موقع مل گیا۔ گل زیب نے مجھے اپنا نمبر دے دیا۔ یوں میری تنہائی کے دشت میں پھولوں کے انبار لگ گئے۔ اب جب موقع ملتا گل زیب کو فون کرتی۔ وہ مجھے واقعی میاں جی کی خادمہ ہی سمجھنے لگا۔ ہم بات چیت کر لیتے، جب آہٹ سنتی فون رکھ دیتی۔ ایک روز اس نے کہا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ ایک جھلک تمہاری میں نے میاں جی کے چمن میں دیکھ لی تھی جب میں لاری کے لئے ان کا سامان اٹھانے آیا تھا۔ کیا تم ایک خادمہ سے شادی کرو گے؟ کیوں نہیں، کیا وه انسان نہیں ہوتیں۔ میں نے کہا کہ میری منگنی ہو چکی ہے۔ تم سے شادی نہیں ہو سکتی۔ یوں بھی ہمارے لوگ قبیلے والوں میں شادیاں نہیں کرتے۔ معاملہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ لیکن مجھے میاں جی اور فواد لالہ کی عزت مطلوب تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ جس لڑکی کو انہوں نے بیٹی کہا ہے وہ کسی کو فون کرے اور میاں جی کی بدنامی کا باعث بنے۔ میں نے کہا۔ گل زیب اب میں تم سے فون پر بھی بات نہ کروں گی ورنہ یہ راز کھل جائے گا تو میاں جی کو بھی صدمہ ہو گا جو مجھے بیٹی کہہ کر پکارتے ہیں۔ گل زیب نے پهر بهی فون پر رابطہ ترک نہ کیا۔ تب میں نے صاف صاف بتا دیا کہ خان صاحب سنو۔ میں ان کی خادمہ نہیں ہوں بلکہ ایک لاوارث لڑکی ہوں۔ میری آپ سے شادی نا ممکن ہو گی کیونکہ مجھ کو اس خاندان نے پناه دی ہے۔ ہاں اگر آپ مجھے پناہ دینا چاہتے ہیں تو میں آپ کے گھر بھی خادمہ بن کے آ جاتی ہوں۔ اس طرح مجھے گل زیب خان نے ذہنی طور پر آماده کر لیا کہ میں میاں جی کا گھر چھوڑ کر اس کے گھر میں پناہ کے لئے چلی جائوں۔ اس نے بار بار مجھے میاں جی کا گھر چھوڑنے کو کہا تو میں ایک روز خالہ گھر چلی گئی۔ خالہ کے پڑوس میں فون تھا۔ میں پڑوسن کی لڑکی سے ملنے کے بہانے گئی اور وہاں سے گل زیب کو فون کیا۔ اس کو بتا دیا کہ میں فلاں جگہ ہوں۔ وہ کہنے لگا نزدیکی اسٹاپ چند قدم پر ہے۔ ادھر آجائو۔ مجھے بھی اس کو دیکھنے کا شوق تھا۔ خالہ سمجھ رہی تھی، ابھی تک پڑوس میں ہوں مگر میں ان کے گیٹ سے نکل کر سڑک پر آ گئی جہاں لاریوں اور ٹرکوں کا اڈا تها۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ میں نے گل زیب کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ پاگلوں کی طرح ادهر ادهر دیکھ رہی تھی۔ خود کو ہونق لگ رہی تھی کہ ہر آنے جانے والے کا چهره تک رہی تھی۔ اس سے وہاں موجود بس ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کو شک پڑ گیا اور وہ مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگے۔ اتنے میں ایک لحیم شحیم شخص جو سرحدی ٹوپی پہنے تھا میرے پاس آیا اور پوچها نوشین ہو؟ باں۔ میں نے جواب دیا۔ ادھر آ جائو۔ یہ کہہ کر وہ آگے آگے چلنے لگا اور میں اس کے پیچھے پیچھے۔ جب ایک گاڑی کے پاس پہنچا تو دروازه کھول کر بولا۔ اس میں بیٹھ جائو۔ میں نے گاڑی میں بیٹھنے میں دیر نہ کی۔ سمجھی گل زیب نے مجھے لینے کو اپنا ڈرائیور بھیج دیا ہے۔ میں نے اس شخص سے دریافت کیا۔ گل زيب مجھے لینے خود کیوں نہیں آئے؟ وه میری بات سن کر ہنسنے لگا۔ تو ہی میں نے جان لیا کہ یہی گل زیب تھے۔ اس کی صورت دیکھ کر اب میرا سر چکرایا۔ کرخت چہرہ اور بڑی بڑی مونچھیں، عمر چالیس سال سے اوپر تھی اور میں سولہ برس کی بے عقل چھوکری۔ أف میرے خدا یہ مجھ سے کیسی فاش غلطی ہو گئی؟ بنا سوچے سمجھے ایک گمبھیر اور ٹھہری ہوئی آواز کے سحر میں جکڑی یہاں تک آ گئی۔ ایسے انجان رستے پر کہ جس کی منزل کا بھی پتا نہ تھا۔ وہ چپ سادھے تھا اور میں چپ سادھے سوچ رہی تھی کہ جانے یہ مجھے کہاں لے جا رہا ہے۔ ٹھکانے پر پہنچ کر اس نے اپنے نوکر کو بلا کر مجھے اس کے گھر بھیج دیا اور کہا کے چند دن اپنے گھر رکھو، مجھے بھی ابھی ٹرک کے ساتھ جانا ہے۔ باشم اس کا پرانا ملازم تھا۔ اس کی بیوی نرم خو عورت تھی۔ اس نے مجھ سے میرے بارے میں پوچھا۔ میں نے سب باتیں اسے بتا دیں۔ وہ بہت پریشان ہوئی۔ بولی۔ تم بدنصیب کس چکر میں پھنس گئی ہو۔ ایسے اچھے لوگوں کا گھر چھوڑ کر ایک جرائم پیشہ آدمی کے چنگل میں پھنسی ہو۔ گل زیب خان بظاہر سامان برداری کا کام کرتا ہے لیکن اصل میں اس کے اور برے دھندے بھی ہیں۔ میرے شوہر کے سوا اور کسی کو علم نہیں کہ دوسرے غلط دهندوں کے ساتھ یہ لوگ برده فروشی کا بھی کام کرتے ہیں۔ مجھے بھی یہ کافی سال پہلے ایک مسجد کے پاس سے اٹھا لایا تھا۔ میری عمر نو برس تھی۔ میں کم سن اور معصوم تھی۔ میرے رونے دھونے سے ہاشم کو مجھ پر ترس آ گیا۔ اس نے منت کر کے خان سے مجھے مانگ لیا کہ میں اس کے ساتھ شادی کروں گا۔ اس کو مجھے دے دو۔ اس وقت وہ بھی اٹھارہ سال کا تھا اور غیر شادی شده تھا۔ لہذا خان نے مجھے اس کے حوالے کیا۔ ہاشم کی ماں زندہ تھیں۔ دو سال میں اس کی ماں کے پاس رہی اور پھر اس نے میرا نکاح باشم سے کرا دیا۔ یوں میں کسی خرکار کے اڈے پر فروخت ہونے سے بچ گئی لیکن ہمیشہ کے لئے اپنے گھر اور ماں باپ سے بچھڑ ہی گئی۔ اس عورت کی بپتا سن کر مجھے چکر آگیا۔ وہ بھی فکر مند تھی کہ اب میرا کیا ہو گا۔ اب پچھتانے لگی۔ بغیر سوچے سمجھے میاں جی جیسے مہربان انسان کے گھر سے کیوں نکلی کہ جنہوں نے مجھے عزت دی اور بیٹی بنا کر رکھا۔ اب واپس لوٹ بھی نہ سکتی تھی کیونکہ میں تو ان کی محبت اور شفقت کی بے قدری کر کے بھاگ آئی تھی۔ جس عورت کی تحویل میں تھی اس کا نام ہاجرہ تھا۔ وہ مجھے رہا کرنے سے ڈرتی تھی۔ گل زیب اور ہاشم ٹرک لے کر گئے تھے، ان کو چار روز بعد آنا تھا، ایک دن تو سوچ بچار میں گزر گیا۔ بالآخر ہاجرہ نے کہا۔ تم سوتیلی ماں کے پاس چلی جائو۔ یہاں سے تو وہی گهر اچھا ہے۔ کیسے جا سکتی ہوں۔ تم ایک خط لکھ کر کوریئر سروس سے بھیجو کہ وہ آ کر تم کو لے جائیں۔ میں نے چٹھی لکھی اور ہاجرہ نے اپنے دیور کو بلوایا جو ٹیکسی چلاتا تھا۔ اس کو کہا کہ یہ خط کسی کوریئر سروس سے بھجوا دو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس طرح میرے سوتیلے بڑے بھائی خاور کو چٹھی مل گئی۔ وه فورا پولیس اسٹیشن گیا اور رات کو پولیس کی نفری وہاں پہنچ گئی، جہاں گل زیب کا ٹھکانہ تھا۔ یہ علاقہ غیر سے نزدیک ایک جگہ تھی جس کا مالک بڑا خان تھا۔ گل زیب اس کا کارندہ تھا۔ صد شکر کہ ہاجرہ جیسی عورت مجھے ملی ورنہ کسی بھی وقت قانون کی پہنچ سے دور پہاڑوں میں گم کی جا سکتی تھی۔ ادهر بے چاری ہاجرہ ڈری ہوئی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ ہم کو تیرا دکھ ضرور ہے مگر مجبور ہیں، کیونکہ ہم جس شخص کے قبضے میں ہیں وہ معافی کے لفظ سے نا آشنا ہے۔ اس نے بتایا کہ گل زیب تو شادی شدہ ہے، وہ بڑے خان کے ڈر سے تم سے شادی نہ کرے گا، کہیں تم کو فروخت نہ کر دے۔ مگر وه تجه کو زیادہ دن یہاں نہیں رکھ سکتا۔ خدا جانے اس کے دل میں کیا ہے جو تم کو اٹھا لایا۔ صد شکر کہ میرے بهائی قادر نے ہمت کی اور کسی بااثر شخص کی مدد سے پولیس لے آیا۔ پولیس اس جگہ کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئی جہاں بڑے خان اور گل زیب کا رہنا سہنا تها۔ گل زیب کا ٹرک جونہی ان کے ٹھکانے واپس آیا، پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا۔ مجھے امید بہت کم تھی کہ میرا بھائی میری مدد کو آئے گا مگر وہ آگیا۔ خون کا رشتہ رنگ لایا، اپنا خون پھر اپنا ہوتا ہے۔ بھائی گرچہ سوتیلا تھا مگر تھی تو میں اس ہی کے باپ کی بیٹی۔ جب اس کو میرا خط ملا وہ نہ رہ سکا۔ میرے دونوں پھوپھا بھی اس کے ساتھ آئے تھے۔ سوتیلی ماں نے مجھے سخت ملامت تو کی مگر وہ بھی آخر عورت تھی اور ماں تھی۔ میری نہ سہی کسی اور کی سہی مگر ممتا کے جذبات سے آشنا تھی۔ اس کو اس کی غلطیوں کا احساس کچھ اس کے بچوں نے بھی دلایا تھا۔ اب مجھے سمجھ آئی کہ سوتیلے رشتے بھی اگر عزت کے پاسبان ہوں تو ان کے لئے دکھ جھیل لینے ہی میں عافیت ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد بھی سوتیلی ماں نے مجھے گھر سے تو نہیں نکالا تھا۔ جب زمانے کی ٹھوکر لگی تب جانا کہ زمانے کی ٹھوکروں سے سوتیلی ماں کی کڑوی باتیں اچھی، مگر نادانی میں بابل کی دہلیز پار کرنے میں تباہی ہی ہے، عافیت نہیں۔
0 Comments