Bin Khushbu Gulab | Teen Auratien Teen Kahaniyan | Urdu Story | Meri Story

 




کون جانتا ہے کہ ہر دم مسکراتے چہروں کے پیچھے بھی دکھ چھپے ہوتے ہیں کہ اسی کا نام زندگی ہے۔ میں داغ دل چھپا کر مسکراتے چہروں کے ساتھ لوگوں سے ملتی اور ان کی میرے بارے میں یہی رائے ہوتی کہ میں غموں سے آزاد ایک ہنستی مسکراتی لڑکی ہوں۔ جس کو اپنی قسمت اور دنیا کی زیاتیوں سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔ بہت دنوں سے جو دکھ دل میں چھپا رکھے تھے، وہ اب ژوح کو کاٹنے لگے تھے۔ وه لاوا جو اندر ہی اندر پک رہا تها، پھوٹ پڑنے کو تھا۔ تبھی قلم کا سہارا لیا اور لکھنے بیٹھ گئی۔ میں نے ایک قدامت پسند گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں لڑکیوں کازور سے ہنسنا بولنا اور کہیں آنا جانا حتی کہ گھر سے باہر جھانکنا بھی منع تھا۔ اسکول جانا لڑکیوں کے لئے ممنوع تھا۔ البتہ ہمارے خاندان میں لڑکوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی نہ تھی بلکہ ان کی ہمت افزائی کی جاتی تھی۔ وہ پڑھ لکھ کر اعلی عہدوں پر پہنچ جاتے تو ان کو اپنے خاندان کی لڑکیاں جاہل اور اپنے معیار کی نہ لگتیں۔ وہ باہر کی پڑھی لکھی لڑکیوں سے بیاہ کرنے کی ضد کرتے جبکہ لڑکیوں کو خاندان سے باہر بیاہنا بھی بڑے عیب کی بات تھی۔ یوں بہت سی لڑکیاں عمر بهر بن بیاہی رہ جاتی تھیں لیکن میں اس مصیبت سے بچنا چاہتی تھی۔ اسی وجہ سے امی سے ضد کرکے گھر پر استانی لگالی جس نے مجھے میٹرک تک کی تیاری کرائی اور میں نے پرائیویٹ طالبہ کے طور پر میٹرک اور اسی طرح گھر بیٹھے بی اے کرلیا۔ والد بھی گریجویٹ تھے۔ بھائیوں اور چاچا نے بھی وکالت کا امتحان پاس کیا مگر وكالت کا پیشہ نہ اپنایا کہ ان کو زمینداری کے بکھیڑوں سے فرصت نہ تھی... ماموں البتہ شہر سے اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے مقابلے کا امتحان بھی پاس کیا اور اعلی عہدے پر فائز ہوگئے۔ ماموں شہر میں رہتے تھے۔ کافی روشن خیال تھے اور مجھ سے پیار کرتے تھے۔ ایک بار گاؤں آئے تو اصرار کرکے وہ مجھے اپنے ساتھ شہر لے گئے اور یونیورسٹی میں داخلہ کرادیا۔ والد، بھائی اور چچا جزبز ہوئے مگر انہوں نے کسی کی نہ سنی اور سب کو خاموش کردیا۔ ہمارے یہاں یہ رواج ہے، بچوں کے رشتے بچپن میں طے کردئیے جاتے ہیں۔ سو میری نسبت بھی چچا زاد سے طے تھی۔ لیکن جب وہ شہر سے پڑھ کر آیا اس نے میرے ساتھ شادی سے انکار کردیا اور اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرلی جو یونیورسٹی میں اس کی کلاس فیلو تھی۔ ان دنوں میں اداس رہنے لگی تھی۔ مجھے اپنے رد ہوجانے کا دکھ تھا کیونکہ بچپن میں جس کو ذہن میں بٹھا لو تو بعد کو اس سے جدائی بہت تکلیف دیتی ہے۔ میرا دل بھی نسبت کے ٹوٹ جانے سے دکھی ہوا تھا، تبھی ماموں آکر مجھے شہر لے گئے تھے کیونکہ امی نے ان سے چپکے چپکے استدعا کی تھی کہ میری بچی ناخوش رہتی ہے اس کو ساتھ لے جاؤ تاکہ ماحول تبدیل ہو اور یہ پھر سے خوش رہنے لگے ماموں کو میں پسند تھی۔ اپنی محنت اور لگن سے پڑها تها۔ انہوں نے مجھے یونیورسٹی میں داخلہ دلوادیا ۔ جب وحید نے کلاس فیلو سے عشق کے بعد کورٹ میرج کرلی تو خاندان بھر میں ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ بزرگوں نے رائے دی کہ چلو ایک شادی اس نے اپنی پسند سے کی ہے مگر دوسری وہ اپنی منگیتر سے کرے گا۔ اس شرط پر ہی اس کی کورٹ میرج کو قبول کریں گے ورنہ جائداد سے عاق کر دیں گے۔ مجھے بزرگوں کے سب احکامات منظور تھے مگر ان کا یہ فیصلہ منظور نہ تھا لہذا مجھے اب دن رات رونے سے کام تھا۔ ایک تو منگیتر کے شادی کرلینے کا دکھ، اوپر سے میرے بڑے مجھے اس کی دوسری بیوی بنانے کی تیاریوں میں لگے تھے... میں نے امی سے کہا کہ اگر یہ لوگ اپنی ان ألٹی سیدهی منصوبہ بندیوں سے باز نہ آئے تو میں جان دے دوں گی، وحید سے شادی نہ کروں گی۔ ماں میرا دکھ سمجھتی تھی۔ اس نے میری بھرپور وکالت کی ماموں کو میرا حال بتادیا اور یوں میں اپنے خاندان کے چنگل سے نکل کر گاؤں سے شہر آگئی۔ پھر جب یونیورسٹی کی کھلی فضا میسر آئی تو ہر غم بھلا کر پڑهنے لکھنے کے ماحول میں خود کو سمو دیا۔ جانتی تھی کہ بزرگ وحید کی مجه سے شادی محض جائداد کے بٹوارے کے خوف سے کرنا چاہتے تھے مگر مجھے اپنے حصے کی جائداد کی بھی پروا نہ رہی تھی بلکہ میں آزادی اور سکھ کی زندگی جینا چاہتی تھی۔ اب میں تعلیم کے میدان میں اتر چکی تھی۔ دوسری بیوی بننے کو توہین خیال کرتی تھی۔ شاید ایسا ہو بھی جاتا۔ صد شکر کہ خود وحید نے انکار کردیا کہ وہ ہرگز دوسری شادی نہ کرے گا خواہ اس کو جائداد سے عاق کیوں نہ کردیا جائے۔ وحید نے مجھے بے سکون تو کیا مگر بعد میں اس کے اس فیصلے نے مجھے پرسکون بھی کردیا۔ اب ٹھکرائے جانے کا دکھ باقی نہ رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد میری نسبت میرے ماموں زاد سے ہونے والی تھی جو بے حد وجیہ اور شوخ طبیعت کے تھے۔ جبکہ مجھے سنجیدہ اور بردبار قسم کے لوگ اچھے لگتے تھے۔ تاہم ساجد مجھ کو ناپسند بھی نہیں تھے۔ میں ان کے گھر میں رہتی تھی اور وہ ہوسٹل میں صرف ویک اینڈ پر آجاتے تھے۔ ہنستے بنساتے، رفتہ رفتہ وہ ہی میرے دل میں گھر کرتے چلے گئے اور میں نے ساجد کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا۔ ساجد بہت شستہ مذاق کرتے تھے۔ میں جو محبت کو ایک فضول چیز سمجهتی تھی، ان کی محبت میں مبتلا ہوتی چلی گئی اور ہم ایک دوسرے کو شدت سے چاہنے لگے۔ چونکہ ماموں نے کہہ دیا تھا کہ میں اپنی بھانجی کو بہو بناؤں گا۔ امی سے بھی بات پکی کرلی تھی۔ لہذا مجھے یقین تھا کہ اب ہمیں کوئی جدا | نہیں کرسکے گا۔ معلوم نہ تھا کے تقدیر ہمارے ساتھ پھر ایک کھیل کھیلنے والی ہے۔ ادهر دو سال بعد وحید اور اس کی بیوی میں اختلافات ہوگئے اور بات طلاق پرختم ہوگئی جس لڑکی کو بطور بہو میرے چچا اور خاندان والوں نے قبول نہ کیا، وہ خود وحید کی زندگی سے نکل گئی۔ اب ایک بار پھر وحید کی شادی کا مسئلہ اٹھا۔ والد اور چچا نے باہم مشورہ کیا اور وحید سے میری شادی کا فیصلہ کردیا۔ میں ان دنوں ماموں کے گھر پر تھی اور ایم اے کے پیپرز دے چکی تھی۔ ماموں ارادہ کررہے تھے کہ جاکر میرے اور ساجد کے رشتے کی بات بابا جان سے کریں گے کہ والد مجھے لینے آگئے۔ گاؤں آئی تو یہ خبر سنی کہ میری وحید کے ساتھ شادی کی تیاریاں ہورہی ہیں، بھونچکی رہ گئی مگر چچی تائی، پھوپھیوں نے کہا کہ اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے، وحید تمہارا بچپن کا منگیتر ہے، اب اسی سے تو شادی ہورہی ہے۔ صد شکر کہ وہ درمیان میں آئی عورت چلی گئی ہے اور جائداد کا بٹواره بھی ہونے سے بچ گیا ہے۔ یہ کیسی بات تھی، ناسمجھ میں آنے والی۔ ابھی ماموں بزرگوں تک مدعا لب پر نہ لائے تھے کہ میری اور وحید کی شادی کے کارڈ بھی چھپ کر آگئے اور ایک کارڈ ان کو بھی لاہور ارسال کردیا گیا۔ ابو نے میری رائے اور خوشی کا کچھ خیال نہ کیا۔ ادھر ساجد ان دنوں اسلام آباد میں تھے۔ ان کو کچھ علم نہ تھا کہ کیا ہوا ہے۔ فون پر ماموں نے بابا سے بات کی۔ میرے والد نے جواب دیا کہ میں بھائی سے جدا نہیں ہوسکتا۔ جیا، وحید کی بچپن سے منگ ہے، یہ رشتہ ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ماموں بچارے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اس جواب پر جو ساجد کی حالت ہوئی، وہ خدا جانتا ہے یا میں جانتی ہوں۔ میری شادی وحید سے ہونے جارہی تھی۔ میری دنیا لٹ رہی تھی اور میں خاموش تھی۔ کیا کرسکتی تھی۔ ساجد بہت دکھی ہوئے۔ وہ اسلام آباد سے آگئے۔ مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ میں وداع ہوکر ساجد کے گھر آگئی تھی۔ شادی کے سال بعد میرے سرتاج سیر کی غرض سے امریکہ گئے اور شادی کرکے وہیں کے ہورہے۔ میں ادھر کی رہی نہ أدهر کی... زمین تو بے شک سلامت رہی۔ آسمان بھی نہ ٹوٹا مگر میرے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ ہم زمیندار گھرانوں کی لڑکیاں چاہے کتنا پڑھ لکھ کیوں نہ لیں، رہتی بے بس اور مجبور ہی ہیں۔ اگر میری شادی وحید کی بجائے ساجد سے ہوجاتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ تب سے اب تک میرے شوہر امریکہ کے باسی ہوچکے ہیں۔ کبھی آتے بھی ہیں تو والدین سے ملنے اور مجھے کوڑے پر پڑا ہوا گلاب سمجھ کر بهلا دیا ہے۔

Post a Comment

0 Comments