Khawaboun Kay Israar Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Khawaboun Kay Israar Teen Auratien Teen Kahaniyan
Khawaboun Kay Israar Teen Auratien Teen Kahaniyan



شعبۂ نفسیات کی اعلی ڈگری لینے کے بعد میں ذہنی امراض میں ایک ماہر ڈاکٹر بن چکی تھی۔ اسپتال میں روز و شب نت نئے مریضوں سے واسطہ پڑتا۔ ایک روز ایسے مریض سے بھی ملاقات ہوگئی جس نے مجھے متاثر کیا اور میں نے اس کے ساتھ عمر بھر کی وابستگی کا بندهن قبول کر لیا۔ اس نوجوان کا نام مہتاب تھا۔ وہ ایک خوبرو اور نہایت دلکش شخصیت کا مالک تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے دین میں کچھ خوابوں کو ایک واہمہ نہیں بلکہ مستقبل کی طرف اشارہ سمجھا جاتا ہے۔ خواب کو نبوت کا چالیسواں حصہ بھی کہا گیا ہے اور کچھ خوابوں کو جو خصوصا انبیائے کرام، عبادت گزار بزرگ بستیوں یا پھر بادشاہوں کو نظر آئے ان کی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اوقات عام لوگوں کو بھی ایسے خواب نظر آ جاتے ہیں جن کو سچا کہا جاتا ہے کہ ان کی تعبیر صحیح نکلتی ہے، مگر مہتاب نے جس خواب کا تذکرہ کیا وہ یوں تو معمولی مگر اس کے نزدیک عجیب و غریب تھا۔ جس کی وجہ سے وہ پریشان رہتا تھا۔ تبھی اسے کونسلنگ کے لئے ہمارے پاس آنا پڑا کہ اس خواب کے باعث اس کے اہم امور زندگی متاثر ہونے لگے تھے۔ مجھے اس نے بتایا ڈاکٹر صاحبہ میں ایک بہت ہی خوشحال خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، پہلے مجھے کوئی پریشانی نہ تھی۔ جب میں اٹھارہ برس کا تھا ایک رات گھر کے صحن میں کھلے آسمان تلے سو رہا تھا کہ ایک خواب دیکھا۔ یہ عجیب و غریب خواب تھا۔ بہت واضح اور روشن...جو میرے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا۔ خواب کو ذرا تفصیل سے بتایئے گا۔ میں پوری توجہ کے ساتھ ہمہ تن گوش ہوگئی تھی۔ مہتاب نے کہنا شروع کیا۔ میں نے دیکھا، ایک لڑکی میرے گھر کے آنگن میں چار پائی پر بیٹھی ہے، نہایت خوبصورت، اس نے بہت اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اس کے ہاتھ کی پشت پر گہرا نشان تھا۔ وہ مجھے بتانے لگی کہ دیکھو بچپن میں گرنے سے مجھے چوٹ لگ گئی تھی، اس لئے یہ نشان ہے۔ میں اس سے خواب میں پوچھتا ہوں تم کہاں ملو گی؟ وہ کہتی ہے۔ تمہیں نہیں مل سکتی کیونکہ میں بیمار ہوں اور اگر تم نے مجھ سے ملنے کی کوشش کی تو تمہیں بہت تکلیف ہوگی، اس لئے نہ ملنا ٹھیک ہے۔ لڑکی کے بازو پر سفید کوٹ سا تها پهر اس نے وہ کوٹ پہن لیا اور چلی گئی، تبھی میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کو شن کر مجھے تعجب ہوا کیونکہ میں بھی بچپن میں گری تھی اور ہاتھ پر چوٹ لگی تھی۔ اس چوٹ کا گہرا نشان اب بھی میرے ہاتھ کی پشت پر موجود تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ میز پر پھیلا دیا اور نشان کو دیکھنے لگی۔ اس وقت میں سفید کوٹ پہنے تھی کیونکہ اسپتال میں ڈیوٹی کے دوران ڈاکٹرز سفید کوٹ پہنتے ہیں۔ مہتاب نے میرے ہاتھ کی پشت پر چوٹ کا نشان دیکھا، میں سفید کوٹ پہنے ہوئے تھی۔ پھر بھی وہ نہیں چونکا۔ گویا کہ میں وہ لڑکی نہ تھی کہ جس کو اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ اس کی پریشانی دور نہ ہوئی، نہ کسی ردعمل کا اظہار کیا۔ تبھی میں نے پوچھا۔ وہ لڑکی کیسی تھی؟ کیا وہ کسی سے ملتی جلتی تھی۔ کیا اس کی صورت کو آپ بھلا چکے ہیں۔ میں اس کی صورت نہیں بھلا سکتا نہ کبھی بھلا پائوں گا۔ اس کی صورت میرے ذہن پر ان مٹ تصویر کی مانند نقش ہے۔ وہ اس دنیا میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہے اور میں کبھی نہ کبھی اس کو دیکھوں گا۔ اس نے یقین کے ساتھ کہا۔ ہر روز مجھے لگتا ہے کہ وہ جیسے گزشتہ شب ہی میرے خواب میں آئی ہو۔ اس کا چہرہ کتابی اور روشن روشن تھا۔ آج تک تو اس سے ملتی جلتی صورت کوئی میری نگاہوں سے نہیں گزری ہے۔ کاش وہ کسی سے مماثلت رکھتی ہوتی تو میری الجهن دور ہو جاتی۔ مسٹر مہتاب... یہ کوئی ایسا خواب تو نہیں کہ جس کی وجہ سے آدمی عرصہ دراز تک پریشان رہے اور اسی لڑکی کے بارے میں سوچتا رہے۔ ایسے خواب بچپن کی کسی یاد یا الجھن کے سبب بھی آ سکتے ہیں۔ ہمارا لاشعور، شعور سے زیادہ طاقتور ہے۔ محض ایک خواب کے پیچھے زندگی کے اہم امور سے فرار اختیار مت کیجئے۔ خود کو سمجھایئے یہ آپ کے بس میں ہے۔ یہی تو مسئلہ ہے اس خواب والی صورت کو بھلا دینا اب میرے بس میں نہیں ہے۔ کیوں؟ اس ’’کیوں‘‘ کے حل کی خاطر ہی تو یہاں آپ کے ژوبرو بیٹها | ہوں۔ سچ کہتا ہوں جس رات یہ خواب نظر آیا، اس کی سحر کے بعد سے مجھ کو چین نصیب نہیں ہوا۔ میرے دل سے مسلسل یہی آواز آتی رہتی ہے کہ اس کو تلاش کرو۔ وہ ضرور اسی دنیا میں رہتی ہے اور تم کو مل جائے گی۔ اسی لگن نے میرا قرار چھین لیا ہے۔ کبھی کبھی تو سانس گھٹنے لگتی ہے۔ آپ نے اپنی عمر بتیس برس بتائی ہے۔ یہ عمر شادی کے لئے مناسب ہے۔ آپ تنہائی محسوس کرتے ہوں گے۔ برا نہ مانئے گا تو پوچھ سکتی ہوں۔ آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟ اس خواب والی لڑکی کی وجہ سے تو نہیں۔ ایسا نہیں ہے، مجھے کوئی لڑکی پسند نہیں آئی۔ جب پسند آ جائے گی تو ضرور شادی کر لوں گا۔ آپ ٹھیک ہیں۔ ذہنی بیمار نہیں ہیں۔ میں نے تسلی دی۔ اچھا جیون ساتھی مل گیا تو قرار بھی آ جائے گا۔ فی الحال جو ٹریٹمنٹ، ہم تجویز کریں، آپ لیں۔ اس طرح آپ کا اعصابی تنائو کم ہو گا اور سکون ملے گا۔ آپ کو وقتا فوقتا یہاں بھی آنا ہوگا۔ مہتاب نے سعادت مندی سے میری تجاویز کو قبول کیا اور وزٹ بھی مقرره وقتوں میں کرتا رہتا۔ اس کے ساتھ کبھی ہمارے سینئر ڈاکٹر قدیر اور کبھی میں کونسلنگ کرتے تھے۔ مجھے لگا کہ موصوف کو کوئی مہلک ذہنی مرض نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ خواب والی لڑکی سے ملنے کی حسرت اور لگن پل میں رکھتے ہیں۔ تاہم ان کو ٹریٹمنٹ کی ضرورت تھی جو ہم نے کی اور کچھ ادویات بھی استعمال کرائیں۔ خواب کی پریشانی کے سوا باقی تمام امور زندگی میں اور اپنے روزمرہ کے طرز عمل و ردعمل میں وہ معمول کے مطابق ایک نارمل انسان ہی تھے۔ صرف یہ چاہتے تھے کہ وہ خواب اور خواب میں نظر آنے والی صورت یا تو ان کو کہیں مل جائے یا وہ اسے اپنے ذہن سے مٹا دیں۔ ہم میں بار بار کی ملاقاتوں سے کافی ذہنی ہم آہنگی ہوگئی۔ وہ مجھ پر اعتبار کرنے لگے اور ایک دن میں نے ان کو مشورہ دیا کہ کسی اچھی سی لڑکی سے شادی کر لیں تو انہوں نے مجھے ہی ’’پرپوز کر دیا۔ مہتاب مجھے اچھا لگنے لگا تھا۔ سوچ میں پڑ گئی۔ اس نے کہا۔ سوچتی کیا ہو... ہاں کہہ دو تاکہ ایک بکھرے ہوئے انسان کو سنور جانے کا موقع ملے۔ يقين کرو. میں نہ تو تم سے کبھی بے وفائی کروں گا اور نہ کبھی شکایت کا موقع دوں گا۔ اور وہ ’’خواب‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ وعدہ ہے میرا کہ اگر تم مل گئیں تو میں اس خواب والی صورت کو بھی بھلا دوں گا۔ تو اسے بھلا دینا تمہارے اختیار میں ہے؟ اس پر وہ تھوڑا ساخفيف ہوا اور حجاب محسوس کیا۔ اچھا تو مجھے چند دن سوچنے کا موقع دو۔ ٹھیک ہے... مجھے زیاده دن الجھن میں مت رکهنا۔ ہاں یا نہ... جو بھی جواب ہوگا میں اگلی بار کی ملاقات میں ہی سننا چاہوں گا۔ گھر جا کر میں نے کافی سوچا۔ عجیب معاملہ ہوا تھا۔ جب خود کو ٹٹولا تو دل نے اس سے شادی کا ہی مشورہ دیا۔ ہفتہ بعد وہ کونسلنگ کے لئے آگیا۔ میں نے کہا کہ مسٹر آپ کو کوئی ذہنی بیماری نہیں ہے، خدا جانے کیا حالات ہیں آپ کے کہ ابھی تک شادی نہیں کی ہے؟ دراصل آپ کو تنہائی کا ایک اچها ساتھی چاہئے اور وہ بھی شریک حیات کی صورت میں۔ یہ میں نے آپ کے مسئلہ کا تجزیہ کیا ہے اور یہی حل ہے کہ آپ کی شریک حیات بھی ایسی ہونی چاہئے جو آپ کو سمجھتی ہو۔ لہذا میں نے مناسب سمجھا ہے کہ آپ کوہاں میں جواب دوں گی لیکن آپ کی والدہ سے ملاقات کے بعد اگر آپ مجھے ان سے ملائیں گے تو ان شاء الله اچها نتیجہ نکل آئے گا۔ مہتاب بھی دل سے یہی چاہ رہا تھا اس نے مجھے اپنی والدہ سے ملا دیا۔ جو مجھے اپنے گھر لے گئیں۔ بہت سمجھدار اور اچھی خاتون تھیں اور انہوں نے خوش اسلوبی سے گھر کو سنبھالا ہوا تھا۔ ان کے سلیقہ پر میں داد دیئے بغیر نہ رہ سکی۔ کشاده بنگلہ اور رکھ رکھائو سے یہ خاندانی لوگ لگے۔ بہرحال میں نے دو چار ملاقاتوں میں ان کی ماں کا دل جیت لیا اور انہوں نے بھی میرے والدین سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ یوں وہ میرے گھر آئیں، امی سے ملیں اور میری شادی مسٹر مہتاب سے ہوگئی۔ حسب توقع اور حسب وعده وه بہت اچھے جیون ساتھی ثابت ہوئے اور ہم خوش و خرم زندگی بسر کرنے لگے لیکن وہ ’’أن کا خواب‘‘ وہ ابھی تک ان کے دل کے نہاں خانے میں کہیں محفوظ تھا۔ اس کو انہوں نے ایک پوشیده خزانے کی طرح ہر کسی کی نظروں سے چھپا کر اپنے من کے بینک میں جمع کر رکھا تھا۔ اب وہ اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کرتے تھے اور ایک نارمل انسان کی طرح اپنے بزنس پر توجہ دے رہے تھے اور ہماری زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی مگر ہم بے خبر تھے کہ ان کے دل سے مسلسل یہی آواز آتی رہتی ہے۔ مہتاب اس کو تلاش کرو۔ یقینا وہ اس دنیا میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوگی۔ وہ جہاں جاتے ان کی نظریں اور دل سے ہی تلاش کرتا رہتا۔ لیکن وہ صورت کہیں بھی نظر نہ آئی۔ میں یہ سمجھتی رہی کہ اس خواب کو انہوں نے واہمہ سمجھ کر بھلا دیا ہے۔ وہ بھی کہتے کہ خواب والی صورت بھلا چکا ہوں۔ اب ہم بال بچوں والے تھے اور بزنس کے سلسلے میں دبئی میں مقیم تھے۔ ایک دوست کی عیادت کے لئے ایک روز وہ اسپتال گئے تبھی سڑک پر ان کو ایک عورت گاڑی میں بیٹھی نظر آئی۔ اس نے سفید کوٹ پہن رکھا تھا اور اس کا ہاتھ گاڑی کی کھڑکی پر تھا۔ جس کی پشت پر ویسا ہی چوٹ کا نشان تھا جیسا انہوں نے خواب میں دیکها تها۔ مہتاب کی نظریں حیرت سے اس عورت کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ محویت کے عالم میں ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے۔ ہاں... یہی ہے، یہی ہے وہ جس کی مجھے تلاش تھی۔ اسی صورت کو ہی تو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ یہی نقوش میرے ذہن میں برسوں سے محفوظ ہیں۔ آج میری تلاش ختم ہو گئی ہے۔ مہرین دیکھو اسے تم بھی دیکھو۔ اس کے ہاتھ کی پشت پر چوٹ کا نشان ہے، صاف نظر آرہا ہے اور سفید کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ دیکھا تم نے؟ میں ان کے برابر والی نشست پر بیٹھی تھی۔ ان کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے میری نظروں نے بھی اسے دیکھ لیا تھا، چونک گئی اور میرے بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا کیونکہ مہتاب سانس روکے ابھی تک اسے ٹکٹکی باندھے تکے جا رہے تھے۔ وہ یہ بھی بھول چکے تھے کہ ان کے برابر میں ان کی جیون ساتھی بیٹھی ہے۔ پہلی بتی بجھ گئی اب سگنل کی ہری بتی جل چکی تھی۔ میں نے ان کا کندها بلایا۔ ’’کار کو آگے بڑھائو مہتاب۔ سبز لائٹ جل چکی ہے۔ میرے چونکانے پر وہ ہوش میں آئے۔ پیچھے ٹریفک کی ہوئی تھی اب وہ کار چلا رہے تھے۔ مگر جیسے خواب میں... گم صم، سکتے میں۔ میں نے پوچھا۔ کیا بات ہے؟ ٹھیک تو ہو؟ جواب دیا۔ ہاں... بیس برس پہلے جو صورت خواب میں دیکھی وہی آج نظر آئی ہے۔ اس بار جاگتی آنکھوں سے دیکھا تو ہوش کھو بیٹھا۔ خدا جانے یہ عورت کون ہے اور کیوں اتنے عرصہ بعد بالآخر مجھے نظر آگئی ہے۔ تبھی میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے اپنی کار کو اس کی کار کے پیچھے ہی رکھا ہوا ہے۔ وہ اسپتال کے اندر چلی گئی، اسی اسپتال ہم بھی جا رہے تھے۔ یہ بھی عجب اتفاق کہ اس نے بھی اسپتال جانا تھا۔ وہ ایک وارڈ کی طرف چلی گئی۔ مہتاب اس کا پیچها أخر تک نہ کر سکے لیکن اس کے بعد انہوں نے اسپتال کے چکر لگانے شروع کر دیئے کہ انہیں کھوج لگ گئی کہ آخر وہ ہے کون؟ جو برسوں قبل ان کے خواب میں آئی تھی۔ بالآخر انہوں نے کھوج لگا لیا کہ وہ ایک مصری عورت تھی اور یہاں ڈاکٹر تھی۔ خدا جانے اس عورت کی ایک جھلک دیکھ کر مہتاب کو کیا ہوا کہ انہوں نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ بھی بھلا دیا، وہ اس آس پر روزانہ مذکورہ اسپتال جانے لگے شاید اس عورت سے بات ہو جائے۔ اس چکر میں ان کا بزنس متاثر ہونے لگا۔ انہوں نے اس کی بھی پروا نہ کی۔ اپنے بزنس کو خود دیکھنے کی بجائے ایک منیجر کو تنخواہ پر رکھ لیا اور خود کاروبار سے ہاتھ اٹھا لیا۔ بالآخر اسپتال میں اس عورت کے سیکشن کا پتا چل گیا اور اس کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹر کو بھی دوست بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک دن میری ساس بیمار پڑ گئیں، ان کو اسپتال لے جانا پڑا۔ اتفاق سے وہی ڈاکٹر یعنی خواب والی خاتون موجود تھیں تو ہمارے صاحب بہادر کو اس سے بات کرنے کا بہانہ ملا۔ امی جان کو اس نے دوا لکھ دی اور دس دن بعد دوباره آنے کا کہا۔ امی جان ٹھیک ہوگئیں تو دوباره انہوں نے اسپتال جانے سے منع کر دیا۔ مہتاب کا دل گهٹ گیا۔ والده نہ مانیں اور یہ بستر میں منہ لپیٹ کر پڑ میں نے کئی بار دریافت کیا کہ تمہیں کیا ہوا ہے؟ طبیعت تو ٹھیک ہے۔ بولے۔ کچھ نہیں سر میں درد ہے۔ غرض مجھ کو ٹال دیا۔ اس روز تمام رات نہ سوئے۔ اس کے بعد بھی مختلف حیلے بہانے سے اسپتال کے چکر لگاتے رہتے مگر اس خاتون کی ایک جھلک بھی نہ دیکھ سکے۔ ایک روز اپنے ایک دوست کی ایئرویز ایجنسی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص وہاں آیا اور کہا کہ ہماری ڈاکٹر صاحبہ کو قاہرہ کے لئے تین ٹکٹ چاہئیں۔ ایمرجنسی میں اگلے دن شام کے ٹکٹ درکار تھے۔ اس آدمی نے ڈاکٹر کا کارڈ بھی دکھایا، جس پر ان کی تصویر لگی تھی۔ تصویر دیکھ کر مہتاب نے پہچان لیا۔ اپنے دوست سے کہا، یار یہ میری جاننے والی ہیں ان کو اور مجھ کو بھی ٹکٹ دے دو۔ میں نے بھی اسی روز اسی فلائٹ سے ہی جانا ہے۔ اسپتال کے ملازم سے جو ٹکٹ کرانے آیا تھا، گھر کا پتا معلوم کر لیا اور کہا کہ تم چلو میں ٹکٹ ڈاکٹر صاحبہ کو پہنچا دوں گا۔ ٹکٹ لے کر ان کے گھر پہنچے اور ان سے پیسے بھی نہ لئے، کہا کہ آپ کی مسیحائی سے میری والده ٹھیک ہو گئیں۔ اس بات کا شکریہ ادا کرنا تھا لہذا آج الله نے یہ موقع دے دیا ہے۔ اس نے بہت اصرار کیا مگر یہ بغیر پیسے لئے بھاگ آئے۔ اس کو بتا دیا کہ میں بھی اپنے کسی کام سے اسی جہاز سے قاره جا رہا ہوں۔ وہاں پہنچ کر رقم لے لوں گا۔ دوباره أن کا سامنا ایئرپورٹ پر ہوا۔ مہتاب کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ اپنے بیٹے اور خاوند کے ہمراہ جا رہی تھی۔ قاہره تک وہ مہتاب کے ساتھ برابر والی سیٹ پر بیٹھی رہی۔ دنیا جہان سے بے خبر میرا جیون ساتھی اس عورت کے خوبصورت مگر چوٹ کے نشان والے ہاتھ کو دیکھتے رہے اور بقول ان کے یہ بات سوچتے رہے کہ اے کاش! وه اس ہاتھ کو تھام سکتے مگر ان کی یہ خواہش پوری ہونی ناممکن تھی کہ وہ کسی اور کی امانت تھی۔ راستے میں اس نے ٹکٹ کی رقم دینے کی کوشش کی مگر انہوں نے نہ لئے اور کہا کہ وہ قاہرہ میں تھوڑی دیر کے لئے ان کے مہمان ہونا چاہیں گے کیونکہ وہاں اور کوئی واقفیت نہیں ہے۔ سوائے بزنس کے سلسلے میں کسی ایک شخص کے ملنے کے، جس سے پہلی بار ملاقات ہونی ہے۔ کوئی دوسرا | کام بھی نہیں ہے وہاں اس کے شوہر نے میزبان ہونے کا شرف حاصل کرنے کی سعادت کو قبول کیا اور مہتاب سے بے تکلف ہوگیا۔ قاہرہ میں یہ لوگ میرے شوہر کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ کھانا کھلایا اور اس آفس میں پہنچا دیا جہاں انہوں نے جانا تھا۔ واپسی کا بتایا کہ فلاں دن جانا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے بھی ساتھ چلنا ہو تو اکٹھے ٹکٹ ہم کرا دیں گے۔ مہتاب نے فورا احسان مندی کا اظہار کر دیا۔ جب واپس اکٹھے دبئی آئے تو خاصی جان پہچان ہو چکی تھی۔ یوں اس خاتون کا شوہر وقتا فوقتا میرے شوہر کے آفس میں آنے لگا اور کبھی کبهار ان کو اپنے گھر بھی لے جاتا تھا۔ تاہم مہتاب کو ابھی تک ڈاکٹر فاطمہ سے اپنے خواب کے تذکرے کا موقع نہ ملا تھا۔ میرے جیٹھ لندن میں رہتے تھے وہ بھی ڈاکٹر تھے۔ فاطمہ کے بیٹے کو ایک ایسی بیماری تھی جس کا علاج لندن میں ممکن تھا لہذا مہتاب نے ان لوگوں کو پیشکش کی کہ اگر وہ لڑکے کو لندن لے جانا چاہیں تو یہ اس کے علاج میں اپنے ڈاکٹر بھائی کے توسط سے مدد کر سکتے ہیں۔ وہ راضی ہوگئے اور یہ ان لوگوں کو لندن لے گئے۔ اپنے بھائی کو کہہ کر ہر قدم پر ان کے بیٹے کے علاج میں ساتھ بھی دیا اور کچھ خرچہ بھی خود سے کیا۔ اس دوران بہت بار موقع ملا ڈاکٹر فاطمہ سے اپنے اس خواب کا تذکرہ کرنے کا کہ جس کی خاطر یہ اس کے پیچھے گھوم رہے تھے مگر ذکر کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ایک بار لندن میں ان لوگوں کے ساتھ شاپنگ کرنے کا بھی موقع ملا۔ انہوں نے اس خاتون کے لئے قیمتی انگوٹھی خرید لی۔ یہ تحفہ ان کو پیش کر کے کہا کہ اپنے ہاتھ سے اسے ان کی انگلی میں پہنانا چاہتے ہیں اس پر وہ خفا سی ہوگئیں اور تحفہ لینے سے بھی انکار کر دیا۔ تب ان کو ہوش آگیا کہ کیا کہہ بیٹھے ہیں۔ بہت پچھتائے تاہم ہمت کر کے یہ بات جو کہی تھی اس کی وجہ بھی بتا دی کہ کیا خواب دیکھا تھا اور برسوں بعد تعبیر ملی تو عقل جاتی رہی ہے۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، معذرت بھی کر لی۔ تب اس خاتون نے گھبرا کر کہا کہ تمہاری دل آزاری ہوئی ہے۔ معافی چاہتی ہوں۔ بہرحال پھر اس نے انگوٹھی لے لی۔ تب انہوں نے ہمت کر کے کہہ دیا کہ برسوں تم کو تلاش کیا ہے کیونکہ میں اس وقت تم سے مل چکا تھا کہ جب ابھی تم سے میری ملاقات بھی نہ ہوئی تھی۔ اس خواب کی وجہ سے عرصۂ دراز تک پریشان رہا ہوں اور اسی چکر میں کہ تم کہیں مل جائو۔ ابھی تک بھی تمہارے پیچھے گھوم رہا ہوں۔ خدا جانے اس بات میں کیا راز ہے مگر میرا چین کهو گیا ہے۔ اور خواب میں تم کو دیکھ لینے کے بعد سے آج تک پریشانی نہیں جاتی ہے۔ اس عورت نے بات سمجھی یا نہیں مگر اتنا کہا کہ مہتاب تم میرا امتحان نہ لو کیونکہ میں پہلے ہی بہت دکھی ہوں۔ دبئی واپس آ کر بھی مہتاب کبھی کبھی اس خاتون سے ملنے جاتے رہتے۔ وه | ان کے التفات کو سمجھتی تھی مگر کسی بات کے اظہار کا موقع فراہم نہ کرتی تھی۔ مجھے ابھی تک اس بات کا علم نہ تھا کہ یہ معجزہ ہو چکا ہے اور وہ خواب والی عورت کے خاوند کا قرب حاصل کر چکے ہیں اور بقول ان کے کہ ان کے دل میں بھی اس خاتون کے لئے کوئی برا خیال نہیں تھا۔ ان کی یہ چاہت اور لگن فرشتوں کی طرح پاک صاف اور شفاف تھی۔ ان کے خیال میں اس عورت سے ان کا کوئی ژوحانی رشتہ یا تعلق تھا جو خود ان کی اپنی سمجھ سے باہر تھا۔ عید پر وہ اپنے گھر قاہره چلی گئی۔ اس کی غیرموجودگی میں یہ اداس اور پریشان رہنے لگے۔ یہاں تک کہ بیمار ہوگئے۔ اس کو قاہره فون کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ جلد واپس آنے والے ہیں۔ جس روز وہ دبئی پہنچے یہ بھلے چنگے ہوگئے اور ان سے ملنے چلے گئے۔ واپس آئے تو بہت خوش تھے۔ میں نے خوشی کا سبب پوچھا تو سچ بتا دیا کہ وہ خاتون مل گئی ہے جس کی مجھے تلاش تھی۔ تب مجھے اس بات کا یقین نہ آیا، میں نے کہا۔ مہتاب کیا دنیا میں ایسے بھی معجزے ہوتے ہیں؟ بولے ہاں... یہ معجزہ ہوا ہے۔ یقین نہیں آتا تو تم کو لے جا کر ملائوں گا تب تو یقین آجائے گا۔ ایک روز انہوں نے فاطمہ اور اس کے شوہر ناصر کی دعوت کی اور وہ ہمارے گھر آئے۔ اس خاتون کو دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ اس کا رنگ ژوپ ایسا تھا کہ مجھے کسی اور کزه کی عورت لگی تھی۔ وہ اس دنیا کی باسی نہ لگتی تھی۔ اتنی حسین صورت کہ نظر نہیں ٹھہرتی تھی، شاید حوروں کا حسن خدا نے اس کو عطا کیا تھا۔ واقعی اس کی صورت بهلا دینے والی نہ تھی۔ تاہم اس راز پر سے پردہ نہ ہٹ سکا کہ وہ بیس برس قبل میرے شوہر کو خواب میں کیوں دکھائی دی تھی۔ جب تک وہ دبئی میں رہی مهتاب کو سکون رہا۔ صرف اس کو دیکھ کر باتیں کرکے ہی وہ خوشی محسوس کرتا تھا۔ میں بھی عورت تھی، حسد تو کرتی تھی مگر صبر بھی کیا، کیونکہ نہیں چاہتی تھی میرا جیون ساتھی کسی ذہنی عارضہ میں پھر سے مبتلا ہو جائے، کیونکہ پہلے تو بات خواب تک تھی اور اب خواب کی تعبیر بھی سامنے تھی۔ حقیقت کا وار چوٹ سے زیادہ کاری ہوتا ہے جس کا زخم اتنا گہرا ہوتا ہے کہ مٹ نہیں سکتا۔ وہ اپنے خاوند اور دو بچوں کے ساتھ خوش و خرم تھی۔ مجھ کو اس سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ عورت کے دل میں میرے خاوند کے لئے محبت کے جذبات قطعی نہ تھے۔ وہ صرف ان کا احترام کرتی تھی اور یہ بات مسلم ہے کہ اچھے لوگ اچھے لوگوں کا احترام کرتے ہیں۔ ایک دن مہتاب نے مجھے بتایا کہ وہ دبئی کے اسپتال کی جاب چھوڑ کر واپس اپنے ملک جا رہی ہے، یہ خبر سنا کر وہ اداس ہوگئے۔ میں نے کچھ نہ کہا۔ نہیں چاہتی تھی کہ ان کی مزید دل آزاری ہو۔ تاہم مجھے ایک نامعلوم سی خوشی ضرور ہوئی اس خبر کو سن کر۔ مہتاب کو جب اس نے اپنے وطن لوٹ جانے کا بتایا تو وہ پریشان ہوگئے۔ ان کو نروس دیکھ کر فاطمہ نے تسلی دی کہ جانے سے پہلے میں ایک شام تم سے ضرور ملوں گی۔ وہ آخری شام آگئی۔ آبادی سے کچھ دور یہ ایک ریسٹورنٹ میں چلے گئے۔ یہ دعوت فاطمہ کی طرف سے تھی اور مصروفیت کے سبب اس کا خاوند ہمراه نہیں تھا۔ آج موقع تھا دل کی حسرت پوری کرنے کا... مہتاب نے اس سے ایک بار پھر اپنے خواب کا تذکرہ کیا کہ میں نے تم کو کچھ سال پہلے خواب میں دیکھا تھا اور تب سے تم کو ڈھونڈ رہا تھا۔ ایسا کہتے ہوئے وہ اس کے ہاتھ کو غور سے دیکھ رہا تھا جس پر چوٹ کا نشان نمایاں تها، تبھی فاطمہ نے کہا۔ مہتاب جب میں بچپن میں گر گئی تھی تب یہ چوٹ میرے ہاتھ پر لگی تھی یہ اسی کا نشان ہے۔ اس نے یہ بات بالکل اسی انداز میں کہی جیسے بیس برس پہلے اس نے ان کو خواب میں کہی تھی۔ میں جانتا ہوں یہ بات... مہتاب نے جواب دیا۔ لیکن تم یہ بتائو کہ تم کیوں دکھی ہو؟ جبکہ بظاہر تم کو کوئی دکھ نہیں ہے۔ بعض دکھ اندر کے ہوتے ہیں جو دل اور روح سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے دکھوں کو کوئی نہیں جانتا۔ مہتاب نے اصرار کیا کہ وہ بتائے اسے کیا دکھ ہے۔ کہنے لگی کہ اس کا نام بھی مہتاب ہی تھا اور وہ ایرانی تها۔ ہم ساتھ پڑھتے تھے، اس نے مجھ سے شادی کا وعده کیا تھا لیکن پھر اس کو ایران جانا پڑا۔ میں نے ساتھ جانے کی ضد کی لیکن وہاں کے حالات ان دنوں بہت خراب تھے۔ اس لئے وہ مجھے ساتھ نہ لے جا سکا۔ اس نے مجھے ایئرپورٹ سے واپس کر دیا۔ اپنے ملک جا کر وہ ہنگاموں میں ہلاک ہوگیا۔ جب مجھ کو یہ خبر ملی صدمہ نہ سہہ سکی اور بے ہوش ہوگئی۔ بہت عرصے بعد میں دوبارہ اس دنیا میں چلنے پھرنے کے قابل ہوئی۔ بے ہوشی کے دوران اور اس کے بعد کے دنوں کا حال مجھے معلوم نہیں لیکن اس دوران ناصر نے میرا بہت خیال رکھا اور سہارا دیا۔ یہ رشتہ میں میرا کزن ہے۔ جب ذرا حالت سنبھلی تب بھی اسی نے دلجوئی کی۔ میں بھی کسی مضبوط کندهے کا سہارا ڈھونڈ رہی تھی، جو ناصر کی صورت میں مجھے ملا تھا۔ میرے والدین نے اس کے ساتھ میری شادی کی خواہش ظاہر کی جس کو میں نے قبول کر لیا۔ باتوں باتوں میں مہتاب کو محسوس ہوا کہ اب فاطمہ کو ناصر سے کافی گلہ ہے مگر اپنی اچھی فطرت کی وجہ سے وہ شادی کا بندهن نباہ رہی ہے۔ وہ اپنے جیون ساتھی سے خوش نہ تھی۔ مرحوم محبوب مہتاب کی یاد ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی تھی۔ اس نے کہا کہ میں بے تابی سے اس انتظار میں زندگی بسر کر رہی ہوں کہ کب موت کا سندیسہ آ جائے اور میں اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے محبوب مہتاب سے جا ملوں۔ دیکھو کتنا بڑا دکھ ہے جو میرے حصے میں آیا ہے۔ اس دکھ کے ساتھ ہی اب مجھے جینا ہے اور اس سے مفر میرے بس کی بات نہیں ہے۔ مہتاب نے مجھے بتایا کہ ایک تعلیم یافتہ ڈاکٹر کے منہ سے ایسی بات سن کر مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ میں نے اس سے کہا کہ فاطمہ میرا بس نہیں چلتا کہ میں تمہارے ایرانی دوست کو اس دنیا سے واپس لے آئوں۔ اس کا نام بھی مہتاب تھا اور میرا نام بھی مہتاب ہے لیکن میں اس شخص کی جگہ نہیں لے سکتا جو تمہارے دل میں ہے۔ حالانکہ تم کو خواب میں دیکھنے کے بعد تم سے ملنے کی خواہش میں... میں نے اپنا چین کھویا اور دیوانہ وار پھرتا رہا ہوں۔ نہیں سمجھ میں آتا آخر تم کیوں مجھے خواب میں نظر آئی تھیں۔ وہ بولی۔ عالم بے ہوشی میں جب میں صاحب فراش تھی، ممکن ہے میری روح مهتاب کی تلاش میں جسم سے نکل گئی ہو... کیونکہ اس وقت میری عارضی موت ہو چکی تھی۔ میں کومے میں تھی۔ ڈاکٹروں کو امید نہ تھی کہ میں پھر سے زندگی کی طرف لوٹ کر آئوں گی۔ اسی دوران شاید غلطی سے میری ژوح بھٹکتی ہوئی تمہارے خواب میں آگئی ہوگی۔ بہرحال ایسے قیاس تو ہوتے رہتے ہیں جن کی حقیقت کوئی نہیں جان پاتا۔ اس نے میرے شوہر سے وعدہ لیا کہ وہ اب کبھی اس کا تعاقب نہ کرے گا ورنہ وہ اور زیادہ دکھی ہو جائے گی۔ مہتاب نے اس شرط پر وعدہ کیا کہ وہ ایک بار ضرور اس سے ملنے قاہره آئے گا اور یہ ان کی آخری ملاقات ہوگیوه چلی گئی مگر میرے شوہر کا دل ویران کر گئی۔ وہ اب پہلے جیسے خوش باش نہ رہے، خاموش اور سنجیدہ رہنے لگے۔ یہ کیفیت ان کے بس کی نہ تھی، میں ان کو تنگ اسی لئے نہ کرتی تھی۔ سوچتی تھی وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایک بار مہتاب نے بے خودی میں کہہ دیا کہ فاطمہ تو اپنے مہتاب سے ملنے کے لئے زندگی کی گھڑیاں گن رہی ہے مگر میں کس لئے جی رہا ہوں... ان کے منہ سے ایسے الفاظ سن کر مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔ اس واقعے کے ایک برس بعد میرے خاوند نے فاطمہ کو قاہره فون کیا اور

خواہش ظاہر کی کہ وہ قاہره آنا چاہتا ہے۔ اس نے کہا آجائو۔ کوئی بات نہیں تم نے ایک بار آنے کا کہا تھا۔ سو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔ مہتاب کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ ان دنوں ہم پاکستان میں تھے۔ انہوں نے ٹکٹ لیا اور ایئرپورٹ مقرره فلائٹ پر پہنچے، اس جہاز میں صحافیوں کا وفد بھی جا رہا تھا۔ بہرحال ان کو اپنے اثر و رسوخ کے سبب ایک ٹکٹ مل گیا تھا۔ یہ خصوصی پرواز تھی۔ یہ قاہرہ کے لئے روانہ ہوئے لیکن بدقسمتی سے وطن واپس نہ آسکے، جس جہاز میں گئے تھے، وہ کریش ہوگیا اور ان کی ژوح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ میں نہیں جانتی کہ ان کی آخری ملاقات فاطمہ سے ہوئی یا نہیں، لیکن یہ جانتی ہوں کہ اس پراسرار عورت نے خواب میں صحیح کہا تھا کہ مہتاب میرا پیچھا نہ کرنا ورنہ پچھتائو گے۔ میں تمہیں نہیں مل سکتی لیکن تم کو تکلیف ہوگی۔ یہ اس خواب کو نہ بھلا سکے اور موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان میں نہیں جان سکتی کہ ایسا پراسرار خواب کیوں ان کو نظر آیا تھا کہ جس کی تعبیر تلاش کرتے ان کو موت کو گلے لگانا پڑا

Post a Comment

0 Comments