Toota Hua Saibaan Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Toota Hua Saibaan Teen Auratien Teen Kahaniyan


میری ماں خوبصورت تھیں مگر اچھی تقدیر نہ تھی کہ والد صاحب شادی سے پہلے کسی لڑکی کو چاہتے تھے اور اسی کو اپنی شریک حیات بنانا چاہتے تھے لیکن اس لڑکی کے گھر والوں نے ان کا رشتہ رد کردیا، تب دادی نے بیٹے کی شادی اپنے رشتے داروں میں کردی اور یوں میری والدہ ان کی بہو بن گئیں۔ شادی تو ہوگئی مگر جیون ساتھی کے دل میں تو کوئی اور بسی تھی۔ انہوں نے اپنی دلہن کو دل سے قبول نہ کیا۔ مشترکہ فیملی سسٹم تها۔ ماں اور بھائیوں کے دبائو سے مارے باندھے کچھ برس بیوی کے ساتھ گزار دیئے مگر اپنی پہلی محبت کو نہ بھول پائے۔ اس لڑکی سے جس کا نام ندا تھا، وہ اکثر چھپ چھپ کر ملتے رہتے تھے۔ ایک دن زمانے کی پروا کئے بغیر دونوں نے اپنی مرضی سے نکاح پڑھوا لیا۔ ندا کے والد اور بھائیوں کو اس طرح اپنی لڑکی کے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا بہت رنج تھا اور وہ میرے ابو سے بدلے کی سوچ رکھتے تھے۔ دو بار ان کے سالوں نے چاقو سے وار بھی کیا جبکہ وہ کہیں راستے میں ان کو مل گئے تھے لیکن خدا نے بچا لیا۔ اب والد کو ہر وقت اس بات کا دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ضرور ندا کے بھائی کسی دن ان سے بدلہ لیں گے۔ اسی خوف کی وجہ سے نوکری چھوڑ وه ندا کو لے کر کسی نامعلوم شہر میں جابسے۔ اب وه صرف کبھی کبھی دادی سے خفیہ طریقے سے رابطہ کرلیتے تھے، باقی کسی سے ناتا نہ رکھا۔ بیوی، بچوں سے اور نہ فیملی کے دوسرے افراد سے۔ والد نے کبھی ایک روپیہ بھی ہم کو نہ بھیجا۔ ماں بیچاری اپنے جیٹھ کی دست نگر ہوگئیں۔ میرے تایا ایک شریف اور حساس انسان تھے۔ جب انہوں نے بھائی کی اولاد کو بھوک سے بلکتے دیکها تو پریشان رہنے لگے۔ ایک معمولی ملازمت تھی اور تنخواہ میں دو کنبوں کا گزاره محال تھا تبھی نوکری کو خیرباد کہہ دیا اور بیوی کے زیور فروخت کرکے وہ بیرون ملک جانے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ تائی نہ چاہتی تھیں کہ کمانے کی خاطر وہ دبئی جائیں۔ وہ لڑ جھگڑ کر میکے چلی گئیں۔ تایا کے سسر اور سالے ان کو سمجھانے آئے، وہ پھر بھی نہ مانے تو انہوں نے بات کو اتنا بڑھا دیا کہ نوبت طلاق تک پہنچا دی۔ یوں تائی نے طلاق لے لی اور ہماری خاطر تایا ابو کا بسا بسایا گهر برباد ہوگیا۔ ان کے تین بچے تھے، وہ بھی تایا نے امی جان کے حوالے کردیئے۔ ہم تین بہن، بھلائی اور والده... چار افراد کا خرچا اب تایا کے ذمے تھا۔ دادی حیات تھیں، انہوں نے کسی بیٹے کو علیحدہ رہنے کی اجازت نہ دی لهذا ہم سب ہی ان کے ساتھ دادی کے گھر قیام پذیر تھے۔ کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر... تایا کی نیت اچھی تھی۔ بیرون ملک جاتے ہی ان کو اچھا روزگار میسر آگیا اور خوب کمانے لگے۔ وہ ہر ماہ ایک معقول رقم امی کو ارسال کرنے لگے۔ وہ گھر کی بڑی تهیں، سارے کنبے کا خرچا وہی چلاتی تھیں۔ ہمیں خبر نہ تھی ہمارا باپ کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ ہم تو بچے تھے۔ والده کی افسردگی کو محسوس ضرور کرتے تھے۔ ان دنوں میری عمر چھ سات برس ہوگی اور میرا بھائی صباحت مجھ سے صرف ایک برس اور دو ماه ہی بڑا تھا۔ وہ کچھ لاپروا مگر میں کافی سمجھدار اور حساس تھی۔ حالات کو جلد سمجھ لیتی تھی۔ رفتہ رفتہ مجھ کو ماں کا دکھ سمجھ میں آنے لگا اور میں ان سے زیادہ قریب ہوگئی۔ امی کو میکے والوں کی سپورٹ حاصل نہ تھی۔ وہ صرف اس امید پر زندگی کے دن گزار رہی تھیں کہ جب میرا بیٹا بڑا ہوگا تو وہ ہم کو سنبھال لے گا۔ ہمارے لئے دادی کا وجود الله تعالی کا انعام ہی تھا کہ ہم ان کے مشترکہ فیملی سسٹم کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ کھانا ایک جگہ پکتا اور سب کو ایک سا ملتا تھا۔ دو چچا اور بھی تھے، وہ بھی اپنی آمدنی دادی کے ہاتھ پر رکھتے اور تایا بھی ہر ماہ باقاعدگی سے رقم ارسال کرتے رہتے تھے۔ دادی بحسن و خوبی اس رقم سے گھر بھر کا انتظام چلاتی تھیں۔ ہر کسی کو معقول جیب خرچ ملتا اور سب کے کپڑے ایک نوعیت کے ہی خریدے اور سلوائے جاتے غرض باپ کے ہونے نہ ہونے کا احساس ہم کو نہیں ہوا کہ ضرورت کی ہر شے ہمیں ملتی تھی۔ کسی قسم کی تنگی نہ تھی۔ تاہم امی جان کو ضرور یہ احساس محرومی ستاتا تھا کہ وہ اور ان کے بچے شوہر کی نہیں بلکہ جیٹھ اور دیوروں کی کمائی پر پل رہے ہیں۔ والد صاحب نے کبھی ہماری کفالت کا ذمہ نہیں لیا اور نہ کبھی ملنے آئے۔ بیوی کو طلاق دینے کے بعد تایا ابو نے دوسری شادی نہ کی۔ ہر بار جب چھٹی پر آتے، دادی ضرور کہتیں کہ فیاض بیٹا! اب تم دوبارہ سے شادی کرکے گھر بسا لو، میری زندگی کے دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ تم کو گهربار کا دیکھنا چاہتی ہوں۔ ماں! کچھ اور ٹھہر جائو، مجھ پر بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ تھوڑی رقم اور جمع کرلوں تو ہوجائے گی شادی بھی۔ تاہم اس بار جب آئے، دادی نے اپنے رشتے داروں میں ایک خوبصورت اور کم عمر لڑکی سے ان کی شادی کرا ہی دی۔ شادی کے بعد تایا اپنی نئی دلہن کے ساتھ صرف ایک ماہ رہ سکے کہ چھٹی ختم ہوگئی تو وہ واپس دبئی چلے گئے۔ تایا کے جانے کے بعد تائی سپنا بہت اداس رہنے لگیں۔ ان دنوں میں آٹھویں اور صباحت دسویں میں تھا۔ ضرورت کی اشیاء سپنا میرے بھائی سے منگواتی۔ وہ صباحت کے ساتھ خوب باتیں کرتیں کیونکہ میرا بھائی حدرجہ باتونی تھا۔ صباحت کی کمپنی سے تائی کا دل بہلا رہتا تھا۔ سپنا کو تائی بلانے سے جھجک آتی تھی کیونکہ ان کی عمر سولہ، ستره برس تھی اور ’’تائی‘‘ کہنا ان پر جچتا نہ تھا۔ میں تو ان کو سپنا آپی ہی بلاتی تھی ۔ جبکہ صباحت صرف سپنا اور کبھی سپنا تائی بھی کہہ دیتا تو کہنے پر وہ برا منا لیتیں۔ تمہارا یہ تائی بلانا، مجھ پر جچتا نہیں ہے۔ تم لوگ مجھ کو صرف سپنا یا سپنا آپی کہہ کر بلا سکتے ہو۔ جب سپنا کا دل تنہائی سے گھبراتا، وہ مجھے اور صباحت کو اپنے کمرے میں بلا لیتیں۔ میرا مسئلہ یہ تھا کہ مجھ کو زیادہ باتیں کرنا پسند نہ تھا۔ اسکول سے آکر امی کے ساتھ کام کراتی اور پھر پڑهنے بیٹھ جاتی جبکہ صباحت نکما اور لاپروا قسم کا باتونی لڑکا جس کو پڑھنے سے زیاده ادهر ادهر پھرنے اور وقت ضائع کرنے سے کام تھا۔ پس اس کی سپنا تائی سے بن گئی اور وہ گھنٹوں ان کے کمرے میں بیٹھ گپیں ہانکتا، اپنا وقت ضائع کرتا رہتا۔ امی اس کو کچھ نہ کہتیں کہ کہیں سپنا برا نہ مان جائے۔ وقت یونہی گزرتا رہا۔ طوعا و کربأ بهائی نے کسی طور میٹرک پاس کرلیا۔ اب وہ کالج جانے سے جی چرانے لگا۔ آئے روز چھٹی کرلیتا۔ بالآخر اس نے کالج کو خیرباد کہہ دیا کیونکہ اس کو پڑھائی سے دلچسپی تھی ہی نہیں۔ اب اس کا سارا وقت سپنا تائی کے کمرے میں گزرتا۔ ان کے ساتھ ہنستا بولتا جس سے اس کا جی بہل جاتا تھا۔ انہی دنوں پھپھو کی شادی ہوئی۔ تایا شادی پر دبئی سے آئے لیکن چھٹی ختم ہوتے ہی واپس چلے گئے کیونکہ ان کو بڑی مشکل سے چھٹی ملتی تھی۔ اگر بغیر چھٹی کے رکتے تو نوکری چلی جاتی۔ صباحت اس وقت کچے ذہن کا ناسمجه لڑکا تھا۔ باپ کا ہاتھ سر پر نہ تھا لہذا خود سر ہوگیا تھا۔ امی کا کہنا نہیں مانتا تھا، صرف تایا سے لحاظ تھا۔ چچا یوں بھی اس کو کچھ نہ کہتے کہ محسوس نہ کرلے کہ باپ موجود نہیں ہے تو چچا ڈپٹتے اور ٹوکتے ہیں۔ چچا صبح آفس چلے جاتے۔ گھر میں صباحت ہی ہوتا، وہی سودا سلف بھی لاتا، باقی وقت سپنا تائی کے کمرے میں گھسا رہتا۔ ان کے کمرے میں نیا ٹی وی تهاجس میں زیادہ چینل آتے تھے۔ وہاں ٹی وی دیکھتا یا پهر سپنا کو نئی نئی انڈین فلموں کی کیسٹیں لا کر دیتا اور دونوں وی سی آر پر فلمیں دیکھ کر وقت پاسکرتے۔دادی نویلی بہو کو کچھ نہ کہتیں کہ دلہن بغیر دولہا کے سسرال میں رہ رہی ہے، اس کا جی بہلا رہے۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ سپنا کی شادی سے قبل کسی اور لڑکے سے جان پہچان تھی۔ وہ لڑکا آواره قسم کا تھا اور ان کے محلے کا تھا۔ سپنا کے والد اس کو ناپسند کرتے تھے۔ تایا گهر ہوتے تو شاید ان کی دلہن کی ہمت نہ ہوتی۔ اب تو تنہائی کے دشت کی مسافر تھیں۔ میرے بھائی کے ساتھ دوستی بنا کر انہوں نے اس کو اپنا پیامبر بنا لیا جس کا کسی کو علم نہ ہوسکا۔ صباحت بھی ان کی چکنی چپڑی باتوں کی وجہ سے ان کے گھیرے میں آگیا۔ اس کو خوب روپیہ پیسہ جیب خرچ دے کر اپنی طرف کرلیا۔ وہ بے وقوف بھی تایا سے غداری کرکے سپنا کا رازدان بن گیا۔ اب سودا سلف کے بہانے صباحت کو جہاں بھیجتیں، حکم کے غلام کی طرح تعمیل کرتا۔ گھر والے سمجھتے کہ تائی کا کام ہے، یہ نہ کرے گا تو اور کون کرے گا لیکن کون جانتا تھا کہ یہ شاطر لڑکی اس سے کیا کام لے رہی ہے۔ سبھی یہ سمجھتے کہ چلو دلہن کا جی بہلا رہتا ہے۔ صباحت سے ہنس بول لیتی ہے تو کوئی بات نہیں۔ صباحت اکلوتا تھا۔ دادی اس کو بہت چاہتی تھیں۔ وہ دادی کی جان تھا۔ اس کی ہر بات مانتی اور ہر فرمائش پوری کرتی تھیں۔ یوں اس کا مزاج بگڑ گیا۔ امی کی کوئی بات نہ مانتا جس کی وجہ سے وہ پریشان رہنے لگی تھیں۔ جب دادی کا انتقال ہوگیا تو منجهلی چچا کی بیوی نے علیحدہ گھر میں رہنے کا مطالبہ کردیا۔ وہ بیوی کو لے کر الگ ہوگئے۔ اس پر چھوٹی چچی نے بھی مطالبہ کیا کہ صحن کے درمیان دیوار اٹھا کر ہم کو بھی علیحدہ کرو تاکہ سکون سے رہیں۔ اب آدها گهر دیوار کے ادهر. تائی آدهے میں ہم اور سپنا تائی رہ گئے۔ تائی کا بس نہ چلتا تھا کہ وہ بھی علیحدہ ہوجائیں مگر اکیلے ہونے کی وجہ سے ساتھ رہنے پر مجبور تھیں۔ ہاں اتنا مطالبہ ضرور کیا کہ صحن کے آدھے حصے میں دیوار ہونی چاہئے مگر دروازہ بھی بنا دیں تاکہ آناجانا رہے اور گھر ایک معلوم ہو۔ انہوں نے کچن بھی ایک رہنے دیا تاکہ میری ماں اور ہم بہنیں ہی پکائیں اور وہ کچن کے بکھیڑے میں نہ پڑیں۔ ماں نے سپنا کے کہنے کی تعمیل کی کیونکہ کماتا تو ان کا شوہر تھا اور ہم ان کی کمائی کھاتے تھے۔ امی کو ہر حال میں اپنی جٹھانی کو خوش رکهنا تها۔ سپنا کے جیب خرچ کی رقم ہر ماه تایا ان کو علیحده بهجوادیتے تھے۔ یہ رقم وه جیسے چاہیں خرچ کرتی تھیں، خاصی رقم ہر ماه مل جاتی تو صباحت کو بھی عیش کرا دیتیں۔ جو چیز وہ چاہتا، دلوا دیتیں۔ دادی کی وفات کے بعد ان کا کمرہ صباحت کو مل گیا۔ کمرہ سپنا تائی کے کمرے کے ساتھ ہی تھا۔ سپنا نے امی سے کہا کہ اکیلے سونے سے ڈر لگتا | ہے، صباحت رات کو بھی دادی کے کمرے میں سویا کرے تو مجھے ڈر نہ لگے گا۔ امی نے بھائی سے کہا کہ تم تائی کی طرف جاکر سویا کرو۔ شادی کے بعد سپنا کافی دلیر اور آزاد خیال ہوگئی۔ شوہر کے بعد ساس کے نہ ہونے نے بے خوف کردیا تھا۔ میرے بھائی کو بھی لالچ دے کر اس نے اپنی طرف کررکھا تھا۔ وہ کسی نہ کسی بہانے اب صباحت کے ساتھ گھر سے بھی باہر جانے لگی۔ کبھی شاپنگ کے لئے بازار اور کبھی کسی سہیلی کے گھر کا کہہ کر امی اس سے دیتی تھیں کہ کچھ کہا تو کہیں شوہر کو ہماری شکایتیں نہ لکھ بھیجے۔ اس سے یہ ہوا کہ صباحت بھی سپنا کا غلام بن گیا اور ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا۔ ایک دن شوروغل کا بہانہ بنا کر سپنا نے آدهی اٹھی صحن والی دیوار کو اونچا کرکے اپنے حصے کو مکمل طور پر ہم سے علیحدہ کردیا اور میرا بھائی جو لالچی اور خودغرض ہوچکا تھا، مستقل ان کی طرف والے حصے میں جا بسا۔ ہم کو اس بات کا بہت صدمہ تها کہ صباحت ہم کو چھوڑ کر سپنا کی طرف چلا گیا ہے۔ بے شک وہ اکیلی تھی مگر ہم بھی تو اکیلے تھے۔ گھر میں مرد تو صرف بھائی تھا۔ ہماری طرف بھی آتا تھا مگر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجهل والی بات تو ہوچکی تھی۔ تائی اس کی جیب میں اچھی خاصی رقم ڈالتی رہتی۔ یہی نہیں اچھے کپڑے اور کھانے کی مزیدار چیزیں دیتی تو وہ ادھر کا رہا۔ میری ماں کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔ اب لوگ سپنا اور صباحت کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے۔ ہمارے باپ کا تو پتا نہ تھا۔ ہم سب صباحت کے سہارے اور امید پر جی رہے تھے۔ وہ بھی ہم سے دور ہوگیا۔ اس کو ماں کا تو کیا، محلے والوں کا بھی لحاظ نہ رہا کہ وہ کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں۔ اپنے تایا کو بھی بھول گیا کہ جنہوں نے ہماری خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔ ماں خوف کے مارے تایا کو کچھ لکھنے سے مجبور تھیں۔ ادهر سپنا کے حوصلے بڑھتے جاتے تھے۔ وہ اب گھر میں نہ ٹکتی تھیں۔ اپنی آرزوئوں کی تکمیل کی خاطر وہ صباحت کو ساتھ لئے پھرتیں اور وہ نادان تائی کی چالوں کا کھلونا بنا ہوا تھا۔ بالآخر منجھلے چچا نے اس راز کا کھوج لگا لیا۔ جب محلے والوں نے آکر ان کو ہوشیار کیا تو ان کو کرید لگی۔ تب معلوم ہوا کہ سپنا اپنے محلے کے اسی لڑکے سے ملتی ہے جس کو وہ شادی سے قبل پسند کرتی تھی۔ ایک دن منجھلے چچا نے سپنا کو اسی نوجوان کے ساتھ سنیما ہال سے نکلتے دیکھ لیا جبکہ صباحت سنيما سے قریب ایک ہوٹل میں بیٹھ کر سپنا کے آنے کا انتظار کررہا تھا۔ چچا نے گھر آکر صباحت کی پٹائی کی تو اس نے کہا چچا! میں مجبور تھا۔ سپنا تائی کہتی تھیں کہ اگر تم نے کسی کو بتایا تو میں تمہاری اور تمہاری والده اور بہنوں کی جھوٹی شکایتیں تمہارے تایا کو لکھ بھیجوں گی۔ وہ تم سب کو گھر سے نکال دیں گے اور خرچہ بھی بند کردیں گے، تب تم کیا کرو گے۔ تبھی میں نے اس معاملے کو امی سے بھی پوشیده رکها کہ تائی اپنے پرانے چاہنے والے سے ملتی ہیں۔ بہرحال منجھلے چچا نے تایا کو تمام احوال لکھ کر آگاہ کردیا۔ انہوں نے دبئی سے ہی سپنا کو طلاق بھجوا دی مگر ہم کو بھی صباحت کی بے وقوفی کی سزا ملی کہ انہوں نے امی کو بھی اس کھیل میں شامل سمجھا۔ ہم سے اس قدر بدل گئے کہ ہمارا خرچا بند کردیا۔ تایا اور منجھلے چچا نے امی سے کہا کہ اگر صباحت یہاں رہے گا تو تم سب بھی گھر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائو ورنہ اس کو اس کے باپ کے پاس جانے کا کہو آخر اس کا بھی تو کچھ فرض ہے کہ اپنی اولاد کو دیکھے۔ امی نے دل پر پتھر رکھ کر صباحت کو اس کے باپ کے پاس چلے جانے کا کہا اور چچا نے صباحت کو پتا بتا دیا جہاں میرے والد اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔ صباحت وہاں پہنچا تو اس کو والد نہ ملے کیونکہ وہ تو کافی عرصہ پہلے وہاں سے چلے گئے تھے۔ البتہ محلے والوں نے بتایا کہ جس لڑکی کو بھگا کر اس کے ساتھ نکاح کرکے یہاں لائے تھے، اس کے ورثاء نے بالآخر یہاں کا کھوج لگا لیا اور وہ اپنی لڑکی کو لے گئے اور تمہارے والد کو زدوکوب اور ادھ موا کرکے ڈال گئے۔ بعد میں اس لڑکی نے بھی عدالت میں اپنے باپ اور بھائی کے حق میں بیان دیا کہ اس شخص نے مجھے ورغلا کر اغوا کیا تھا اور زبردستی نکاح پر مجبور کیا تھا۔ وہ ورثاء کی طرف ہوگئی اور تمہارے والد کو جیل ہو گئی۔ وہ اب بھی جیل میں ہیں۔ صباحت سن ہوکر ہماری طرف بھی نہ لوٹا، نجانے کدھر نکل گیا۔ یوں ہمارے والد کے کئے کی سزا ہم کو ملی اور آج تک مل رہی ہے۔ ہمارے حصے کی جائداد منجھلے چچا نے خرید لی اور ہم کو اس رقم سے دوسری جگہ مکان خرید کر دے دیا۔ میں نے بڑی مشکلات سہہ کر گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ملازمت کرلی اور اپنی والده و بہنوں کی کفالت کا بوجھ اٹھا لیا۔ والده آج بھی ابو کا انتظار کرتی ہیں مگر میں کہتی ہوں کہ خدا کسی ایسے انسان کو باپ کے درجے پر فائز نہ کرے جس کو اپنی اولاد کا احساس نہ ہو۔

Post a Comment

0 Comments