Urdu Story Aisi Saza Na Do Teen Auratien Teen Kahaniyan


Aisi Saza Na Do  Teen Auratien Teen Kahaniyan



اب بھی وہ دن یاد آتا ہے تو جی کانپ جاتا ہے۔ ان دنوں میرے بیٹے سمیر کی عمر گیارہ برس تھی اور وہ چھٹی کا طالب علم تھا۔ میرا بیٹا کلاس میں ہوشیار اور لائق تھا۔ ایک روز ہمارے گھر میں مہمان آئے اور رات تک رہے۔ ان کے ساتھ بچے بھی تھے۔ سمیر اسکول کا کام نہ کرسکا کیونکہ میں نے اس کو سودا سلف لانے کے لئے باربار گھر سے باہر بھیجا تھا۔ اس طرح اس کا وقت ضائع ہوا۔ رات کو تھک کر جلد سو گیا کہ اس کو جلد سو جانے کی عادت تھی۔ اگلے روز اس نے کہا کہ وہ اسکول نہیں جانا چاہتا کیونکہ ہوم ورک نہیں کیا ہے، ٹیچر سے ڈانٹ پڑے گی۔ تبھی میں نے کہا۔ کوئی بات نہیں، ڈانٹ کھا لینا مگر اسکول ضرور جائو، ناغہ مت کرو۔ وہ خود بھی ناغہ نہ کرتا تھا۔ اس دن اسے نجانے کیا ہوا کہ اس کا دل بالکل بھی جانے کو آمادہ نہ تھا۔ بہرحال میں نے مجبور کیا کہ وہ ضرور جائے، تبھی بادل ناخواستہ تیار ہوگیا اور چلا گیا لیکن کافی لیٹ پہنچا تھا۔ اس وقت دعا ہو چکی تھی اور بچے کلاسوں میں جا چکے تھے۔ وه بستہ گلے میں ڈالے بهاگا بھاگا اسکول گیٹ پر آیا تو چپراسی نے اسکول میں داخل ہونے سے روک دیا کیونکہ بیڈ مسٹریس کی ہدایت تھی کہ لیٹ آنے والے بچوں کو اندر نہ آنے دیا جائے بلکہ گیٹ سے واپس کردیا جائے تاکہ ڈسپلن خراب نہ ہو۔ میرے بیٹے نے کافی منت کی مگر چپراسی نے ایک نہ سنی اور اسکول گیٹ بند کردیا یہ کہہ کر کہ میڈم کا حکم ہے۔ اب تم اتنی دیر سے کلاس میں جائو گے تو میڈم مجھ پر ناراض ہوں گی۔ سمیر واپس پلٹنے پر مجبور ہوگیا ۔ جب وہ سڑک پر آیا، سوچنے لگا واپس کیسے جائوں، ماں خفا ہوگی۔ اصل بات یہ تھی کہ جب میں نے اس کو ہر حال اسکول جانے کا کہا تو وہ بستہ کھول کر اسکول کا کام کرنے بیٹھ گیا تھا۔ تب میں کہتی رہ گئی کہ اٹھو اور تیاری کرو ورنہ لیٹ ہوجائو گے۔ اب ہوم ورک کرنے کا ٹائم نہیں ہے مگر اہانت سے بچنے کو اس نے میری بات نہ سنی اور جلدی جلدی ہوم ورک پورا کرنے کے بعد ہی یونیفارم پہنا اور ناشتہ کئے بغیر گھر سے نکل گیا۔ جو بس اس کے اسکول جاتی تھی، وہ ہمارے گھر کے پاس سے مل جاتی تھی۔ خوش قسمتی سے وہی مخصوص نمبر کی بس اسٹاپ پر کھڑی تھی۔ وہ دوڑ کر اس میں چڑھ گیا۔ اس کو امید تھی جب اسکول پہنچے گا تو اسمبلی ہورہی ہوگی مگر بس بھی راستے میں دو چار مسافر اٹھانے کو بریک لگاتی چلی گئی، یوں اور دیر ہوگئی۔ چپراسی تو گیٹ لاک کرگیا مگر کچھ دیر تک اسکول کے باہر کھڑا یہی سوچتا رہا کہ اب کیا کرے۔ گھر جانے کا مطلب تھا ماں کی خشمگیں نگاہوں کا سامنا کرنا۔ اس نے سوچا کہ میری ماں یہی سمجھے گی میں راستے سے لوٹ آیا ہوں تبھی وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اسکول کے سامنے پھیلے گرائونڈ کی طرف چلا گیا جہاں کچھ لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ وہ ان کو کھیلتے ہوئے دیکھنے لگا۔ کافی دیر وہ کھیل دیکھنے میں محو رہا۔ تھوڑی دیر میں وہاں ایک بندوقچی آگیا جس کے پاس نشانہ لگانے والا بڑا سا گنہ تھا جس پر گول دائرہ بنا ہوا تھا۔ لڑکے اپنا کھیل چھوڑ کر اس کی جانب لپکے۔ نشانہ بازی کا یہ کھیل بھی بڑا دلچسپ تھا۔ بچے بندوقچی کو چند سکے دیتے اور وہ بندوق میں چھرے بھر کر لڑکے کے حوالے کرتا۔ وہ باری باری سامنے رکھے بورڈ پر رنگ برنگ غباروں کو نشانے پر لیتے۔ یہ ایسا دلچسپ اور دل موہ لینے والا منظر تھا کہ سمیر اس افتاد کو بھول گیا کہ گھر بھی جانا

یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے، کھیل بچوں کا دھیان پکڑ لیتے ہیں اور ان کو وقت گزرنے کا احساس نہیں رہتا۔ سمیر بھی اسی عمر میں تھا۔ پس وہ کھیل دیکھتا رہا۔ لڑکوں کے پیسے ختم ہوگئے، وہ اپنی راہ ہو لئے تبھی سمیر کو خیال آیا کہ اس کی جیب میں کچھ پیسے موجود ہیں کیونکہ اس نے تین دن سے اپنا جیب خرچ جمع رکھا ہوا تھا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ جتنے روپے تھے، نکال لئے اور نشانہ بازی کرنے لگا، یہاں تک کہ رقم تمام ہوگئی۔ بندوقچی نے اپنا گتہ اور بندوق کندھے پر لٹکائی اور چلنے کو ہوا تو سمیر کو ہوش آیا کہ اس نے بھی تو گھر جانا ہے۔ اس نے گھبرا کر تماشے والے سے پوچھا۔ تم کو معلوم ہے اس وقت کیا بجا ہے؟ کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی اور بندوقچی بولا۔ اوه! یہ تو بند ہوگئی ہے، میں آج اس کو چابی دینا بھول گیا تھا۔ان دنوں گھڑیوں میں سیل نہیں ٹلتے تھے بلکہ ان میں چابی بھری جاتی تھی۔ اس شخص نے دیکھا کہ لڑکے کے چہرے پر پریشانی کے آثار ابهر آئے ہیں۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ اسکول سے بهاگا ہوا ہے، اس لئے گھر جانے سے قبل ٹائم پوچھ رہا ہے۔ وہ بولا۔ ایسا کرو کہ تم یہاں کھڑے رہ کر نشانہ لگائو، میں تم سے پیسے نہ لوں گا۔ میں سامنے اس کٹیا تک جاتا ہوں، وہاں میرا بھائی رہتا ہے۔ مجھے پیاس لگی ہے، پانی کی بوتل لاتا ہوں اور ٹائم بھی پوچھ لوں گا۔ گھبرا نہیں، بس میرے سامان کا دھیان رکھنا۔ میں ابھی گیا اور ابھی آیا۔ یہ کہہ کر اس نے بھی چھرے والی بندوق میرے لخت جگر کو تھما دی اور خود کٹیا کی جانب دوڑ لگا دی جو سامنے نظر آرہی تھی۔ لاکھ سیانا سہی، بچہ پھر بچہ ہوتا ہے۔ بندوق ہاتھ میں آتے ہی وہ پھر سے نشانہ بازی میں مصروف ہوگیا، یہاں تک کہ تھک گیا، چھرے بھی ختم ہوگئے۔ اس کو جمائیاں آنے لگیں، پیاس بھی محسوس ہونے لگی۔ اس نے کئی بار كثيا کی طرف دیکھا، کوئی آتا دکھائی نہ دیا۔ تھوڑی دیر انتظار کی اذیت سہنے کے بعد وه نشانہ بازی کا سامان وہیں چھوڑ کر سڑک کی طرف جانے کو ہوا۔ اس کو اندازہ ہوگیا کہ اسکول کی چھٹی ہوچکی ہے اور اب اس کو گھر چلے جانا | چاہئے۔ سڑک سے بس پر چڑھ بیٹھے گا تو وقت پر گھر پہنچ جائے گا۔ ابھی وه دو قدم چلا تھا کہ بندوقچی آپہنچا اور بولا۔ تم کہاں جارہے تھے، میرا سامان چھوڑ کر اپنے گھر جارہا ہوں۔ سمیر نے جواب دیا۔ اس وقت کیسے جائو گے؟ اسکول کی تو کب کی چھٹی ہوگئی ہے۔ اب سہ پہر کے تین بج رہے ہیں جبکہ اسکول کی چھٹی دو بجے ہوجاتی ہے۔ میں جانتا ہوں۔ تم کو تو کافی دیر ہوگئی ہے۔ ہاں... تمہاری وجہ سے... کیا پیدل جائو گے؟ نہیں۔ بس پر! سامنے سڑک سے مل جائے گی۔ بس کا کرایہ تمہارے پاس ہے؟ نہیں... سمير کو دفعتأ یاد آیا کہ اس نے سارے پیسے تو نشانہ بازی میں لگا دیئے تھے۔ تبھی نفی میں سر ہلایا۔ اچها ایسا کرو کہ تم میرے ساتھ اس کٹیا تک چلو، وہاں میرے بھائی کا رکشہ موجود ہے۔ وہ تم کو تمہارے گهر چهوڑ دے گا اور کرایہ تم اپنی امی سے لے کر اس کو دے دینا۔ سمیر متفکر ہوا۔ بندوقچی صحیح کہہ رہا تھا، بغیر کرایہ وہ بس پر نہ جاسکتا تھا۔ تبھی اس چالاک آدمی نے میرے بیٹے کو باتوں میں لگا لیا اور وہ اس کے ساتھ کٹیا تک جانے پر راضی ہوگیا جہاں ایک رکشہ کھڑا نظر آرہا تھا۔ میرے شوہر تین بجے تک گھر آجاتے تھے اور سمير، باپ سے بہت ڈرتا تھا۔ اس نے سوچا اور دیر ہوئی تو والد سے مار ہی نہ پڑ جائے۔ کیا بتائے گا کیوں دیر سے گھر پہنچا ہے۔ پس اس نے اسی میں عافیت جانی کہ رکشے میں گهر چلا جائے۔ اس کو سوچتا دیکھ کر اس شخص نے کہا۔ بیٹا! ٹائم ضائع مت کرو، پہلے ہی تم کو بہت دیر ہوچکی ہے۔ بس اب تم جلدی سے گھر چلو۔ بس میں جانا چاہتے ہو تو یہ لو کرایہ... بس پر چلے جائو لیکن بس میں اور بھی تم کو دیر ہوجائے گی، بہتر ہے کہ میرے بھائی کے رکشے میں چلے جائو۔ تمہاری مرضی ہے۔ بچے نے اس آدمی کی بات کا اعتبار کرلیا اور وہ رکشے میں بیٹھ گیا۔ رکشے والے کو گھر کا پتا بتا دیا۔ جونہی وہ رکشے میں بیٹھا، بندوقچی نے پانی کی بوتل اس کو تھما دی اور کہا۔ اگر پیاس لگی ہے تو پانی پی لو۔ پیاس تو واقعی اس کو لگ رہی تھی کیونکہ بہت دیر تک گرمی میں وہ میدان میں کھڑا رہا تھا۔ اس نے بوتل منہ سے لگا لی اور سیر ہوکر پانی پیا۔ پانی ٹھنڈا تھا لہذا اسے پیاس بجانے کا لطف آگیا لیکن اس کے بعد نجانے کیا ہوا، اسے نہیں معلوم۔ جب ہوش آیا تو وہ ریل گاڑی کے ڈبے میں موجود تھا جس میں سواریاں نہ تھیں بلکہ بس دو شخص اس کے پاس بیٹھے تھے۔ دراصل یہ اسپیشل ڈبا تها جو انہوں نے ریزرو کرا لیا تھا۔ سمیر گھبرایا لیکن وہ سمجھ گیا کہ یہ لوگ اس کو اغوا کرکے لے جارہے ہیں۔ اس نے قبل ازیں ایسے واقعات اور باتیں سن رکھی تھیں۔ وہ ایک ذہین لڑکا تھا۔ سوچنے لگا شور مچایا تو یہ لوگ اس کو خاموش کردینے کا انتظام بھی جانتے ہوں گے۔ یہ سارا کام سوچ سمجھ کر ہوا ہے تو اس کو بھی سوچ سمجھ کر رہنا ہوگا۔ جب گاڑی کی رفتار دھیمی ہوئی تو وہ جان گیا کہ اسٹیشن آگیا ہے تبھی اس نے ٹائلٹ جانے کا اشارہ کیا۔ ان میں سے ایک اس کو ٹائلٹ لے گیا اور خود باہر کھڑا ہوگیا۔ ٹائلٹ دروازے کے قریب تھا۔ ریل گاڑی ٹھہری ہوئی تھی، اس نے گردن نکالی۔ دیکھا سامنے اسٹیشن ہے جس پر میاں چنوں لکھا ہوا ہے۔ اس کو یاد آیا کہ اس کی خالہ میاں چنوں میں رہتی ہیں اور پچھلی چھٹیوں میں وہ ماں کے ساتھ اس کے گھر جا چکا تھا۔ یہ

خالہ اسکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں، اسے اسکول کا نام بھی یاد تھا۔ پس ٹائلٹ سے نکلتے ہی اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور نگرانی کرنے والے کی پروا کئے بغیر ریل سے باہر چھلانگ لگا دی۔ وہ ریل کے کھلے دروازے پر سے کود پڑا تھا۔ اسے چوٹ تو آئی مگر اس نے پروا نہ کی اور دوڑ لگا دی۔ وہاں موجود لوگ اس کو حیرت سے دیکھ رہے تھے اور نگراں گهبرا | کر وہاں سے ہٹ گیا تھا۔ سامنے بہت سے لوگ سامان اٹھائے جارہے تھے۔ وہ ان کے درمیان سے ہوتا ہوا نجانے کس سمت بھاگ رہا تھا کہ بیرونی گیٹ پر ریلوے کے ایک سپاہی نے اس کو روک لیا۔ سمیر کا سانس پھول گیا تھا، وہ بات نہ کر پا رہا تھا۔ ریلوے کا سپاہی اس کو ایک ریلوے آفیسر کے پاس لے گیا۔ اس نے اپنے آفس میں بٹھا کر پانی وغیرہ پلایا۔ سمیر کا سانس بحال ہوا تو اس نے آفیسر کو احوال بتایا کر کہا۔ یہاں میری خالہ فلاں اسکول کی ہیڈ مسٹریس ہیں، آپ مجھے ان کے پاس پہنچا دیجئے۔ یوں میرا لخت جگر بدنصیبی کے آخری دبانے سے لوٹ کر اپنے ماں، باپ کی پرشفقت جنت کے سائے تلے لوٹ آیا۔ کیا بتائوں جب سمیر گھر نہ لوٹا، اس کے بعد کے دو دن ہم نے کیسے گزارے، اپنے بیٹے کی جدائی کو میں جیتے جی کا جہنم کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس وقت کو کوستی تھی جب میں نے اس کو زبردستی اسکول بھیجا تھا۔ اسکول سے بھی پتا کیا لیکن چپراسی نے بھی ڈر سے نہ بتایا کہ وہ آیا تھا مگر اس نے سمیر کو اسکول کے اندر جانے نہ دیا تھا بلکہ گیٹ بند کرلیا تھا۔ میں آج بھی اس واقعے کے بارے میں سوچتی ہوں تو ذبن خلفشار کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اگر میرا بچہ حاضر دماغی سے کام نہ لیتا، اگر وہ جرأت مند اور ذہین نہ ہوتا تو شاید وہ ان ظالموں کے چنگل سے کبھی نہ نکل سکتا۔ خدا | جانے وه سفاک انسان اس کا کیا حشر کرنے والے تھے۔ سوچتی ہوں اسکول کی سربراہ سے کہوں کہ کمسن بچوں کو لیٹ آنے پر سزا | نہ دیا کریں بلکہ ان کے والدین کو بلوا کر سرزنش کیا کریں۔ ممکن ہے کہ لیٹ آنے کا سبب ان کے گھر والے ہوں یا کوئی اور وجہ ہو

Post a Comment

0 Comments