Urdu Story Aik Nataa Tu Hai Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

Urdu Story Aik Nataa Tu Hai  Teen Auratien Teen Kahaniyan



رانو میری گہری سہیلی تھی۔ تبھی آج میں آنکھیں بند کرکے اس کے پیچھے چلی جا رہی تھی، یہ جانے بغیر کہ وہ مجھے کدھر اور کس کے پاس لئے جا رہی ہے۔ وہ سہ پہر کو میرے گھر آئی کہا کہ چلو سلطانہ مجھے تمہارے ساتھ کہیں جانا ہے۔ کہاں؟ میں نے پوچھا۔ کہیں تو جانا ہے۔ سوال نہ کرو، بس چلو جلدی ہے بہت؟ کہا کہ ہاں ...بہت جلدی میں ہوں۔ میں نے مزید کوئی سوال نہ کیا کیونکہ اس کا چہرہ اس کے ارادے کی چغلی کھا رہا تھا۔ تمام کہانی گویا اس کی صورت پر لکھی ہوئی تھی۔ راستے میں مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ قدم اٹھاتے ہوئے وہ بے قراری کا شکار تھی جیسے چلنا نہیں بلکہ اڑ جانا چاہتی ہو۔ گھر کی گلی سے تھوڑا آگے چلے تھے کہ ایک نیلے رنگ کی گاڑی نظر آگئی جس میں خوبرو نوجوان اسٹیئرنگ پر دونوں بازو رکھے سراپا انتظار تھا۔ رانو نے جهٹ پٹ گاڑی کا دروازہ کھولا اور اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر براجمان ہو گئی اور مجھے کہا ’’بیٹھو۔‘‘ میں نے ناچار اس کے حکم کی تعمیل کی اور پچھلی نشست پر براجمان ہو گئی اب سچوئیشن ایسی تھی کہ اس سے کسی سوال کی گنجائش نہ تھی۔ نوجوان نے بغیر کلام کئے گاڑی اسٹارٹ کردی تھوڑی دیر تک خاموشی رہی۔ مجھے علم نہ تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ سہیلی کی خاطر چپ تھی جب گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے سامنے رکی تو نوجوان اتر گیا اور مؤدبانہ بولا۔ آیئے کافی پی لیں۔ جب ہم وہاں ایک گوشے میں بیٹھ گئے تو رانو نے تعارف کرایا۔ یہ میری عزیز از جان سہیلی ہے ۔ اس نے میرا نک نیم ہی بتایا۔ ’’شیری‘‘۔ جتنی دیر ہم کافی سے لطف اندوز ہوتے رہے، خاموشی ہی میں گفتگو ہوتی رہی۔ یہاں پر میرے از خود بولنے کا تو جواز نہ تھا۔ تاہم ان کی نگاہوں میں گفتگو جاری تھی۔ کبھی کبھی وہ دونوں اس طرح ایک دوسرے کی جانب دیکھتے کہ میں شرمنده سی ہو جاتی۔ یہ میری جبران سے پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد جب رانو اس سے ملنے جاتی، مجھ سے اصرار کرتی تھی تم بھی چلو۔ مجھے خوف تھا کہ اگر اس کے والدین کو علم ہو گیا تو میری بھی شامت آئے گی لیکن وہ مصر ہو جاتی، تمہارے بغیر مزہ نہیں آتا سیر کرنے کا، چلو نا... اب اتنا بھی مت اترائو۔ شروع شروع میں زیادہ تر چپ رہتی۔ ان کی گفتگو میں شریک نہ ہوتی۔ رسمی سلام و دعا کے بعد خاموشی اختیار کر لیتی۔ تاہم کچھ دنوں بعد میں ان سے گھل مل گئی۔ جبران کے اپنائیت بھرے رویئے نے مجھے مجبور کر دیا کہ گھل مل جائوں اور ان کی دوستی کا حصہ بن جائوں پہلے میں رانو کو سمجھاتی تھی کہ یہ دوستی ٹھیک نہیں، اب خود شامل ہوئی تو مجھے بھی سیرو تفریح میں لطف آنے لگا۔ وہ اپنے گھر والوں کو کہتی کہ شیری کے گهر جا رہی ہوں یا اس کے ساتھ جانا ہے۔ اس کی امی مجھ پر بھروسہ کرتی تھیں۔ اجازت دے دیتیں۔ اس آزادی نے اس کے جذبہ شوق کو ہوا دی اور میرے ساتھ ہونے سے اس کو ڈھارس ملتی گئی۔ تبھی ہم دونوں دوستی کی راہوں پر چلتے چلتے دور نکل آئے۔ میں جبران کی باتوں سے اتنی محظوظ ہوتی تھی کہ مجھے اب اس کا انتظار رہنے لگا۔ وہ مجھ پر اتنی توجہ دیتا کہ میں خود کو ان دونوں کے بیچ تیسرا وجود جان کر اجنبی محسوس نہ کروں۔کبھی کبھی یہ خیال آ جاتا تھا کہ ان دونوں کے بیچ تو محبت کا رشتہ ہے، میں خواہ مخواه ساتھ لگی پھرتی ہوں۔ جبران بھی یہ بات سمجهتا تها، وہ میرے بور ہونے کے اندیشے سے مجھے نظرانداز نہیں کرتا تھا جبکہ میں اس کی توجہ اور باتوں سے غیر محسوس طریقے پر اس میں دلچسپی لینے لگی تھی۔ رانو کے ماموں ڈاکٹر تھے اور لاہور میں ایک بڑے اسپتال میں فرائض ادا کرتے تھے۔ کچھ دنوں سے رانو کی والدہ کو سانس کی تکلیف رہنے لگی تھی۔ تکلیف بڑھی تو وہ اپنے بھائی کے پاس علاج کے لئے لاہور چلی گئیں۔ اصرار کرکے رانو کو بھی ساتھ لے گئیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو ماں کے ہمراه جانا پڑا... خدا کی قدرت کہ وہاں رانو کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ اس کے ماموں نے چیک اپ کرایا تو پتا چلا کہ رانو کے دل کی شریان کا کوئی مسئلہ ہے۔ جس کا علاج لندن میں ہوسکتا ہے۔ اس کے ماموں نے بھانجی کا علاج کرانے کا بیڑا اٹھالیا۔ وہ اپنی والدہ کے ہمراہ چند دن کے بعد آئی اور کہا ۔ شیریں تم میرے بعد جبران سے ملتی رہنا، اس کو میری کمی محسوس نہ ہو۔ اسے یہ مت بتانا کہ میرے دل میں نقص ہے اور میں علاج کے لئے لندن جا رہی ہوں۔ یہی کہنا کہ لاہور گئی ہے۔ میری زندگی رہی تو آکر جبران سے ملوں گی۔ ابھی بتائو گی تو وہ میری بیماری کے بارے میں پریشان رہے گا۔ جب صحت یاب ہو کر لوٹوں گی تو خود بتا دوں گی۔ وہ چلی گئی اور مجھے ایک خوبصورت فریضہ سونپ گئی کہ جبران کو پریشان مت ہونے دینا، اس کو میری یاد دلاتی رہنا۔ تاہم اب جبران سے ملاقات کا کوئی جواز نہ تھا۔ وہ میری سہیلی کی محبت تھا۔ جب وہی نہ تھی مجھے اس سے نہ ملنا چاہیے تھا۔ لیکن انہی دنوں میں نے شدت سے محسوس کیا کہ میرے دل میں جبران کے لئے جگہ بن چکی ہے اس کے بغیر یہ زندگی مجھے بے کیف سی لگنے لگی تھی۔ یہ میں جانتی تھی کہ میری سہیلی اس شخص سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتی تھی۔ پھر بھی دل چاہتا تھا کہ جبران کہیں کسی دن مجھے سرراه ہی مل جائے تو کیا اچھا ہو ... میں آئینہ دیکھتی تو چہرہ بے رونق نظر آتا۔ اپنی صورت دیکھنے کو دل نہ چاہتا تھا۔ کبھی خود کا موازنہ رانو سے کرتی تو خود کو زیادہ خوبصورت پاتی۔ اس کا قد مجھ سے چھوٹا اور رنگت سانولی تھی۔ وہ ضرور دلکش نقوش کی پرکشش لڑکی تھی لیکن میری رنگت تو انار کی کلی کے ایسی تھی۔ جانے کیا بات تھی، یہ شخص پھر بھی رانو کے سوا کسی اور کی طرف دیکھتا تک نہ تھا۔ دل سے نکلی دعا قبول ہوگئی۔ ایک روز میں امی کے لئے دوائیں خریدنے گهر سے نکلی، وہ میڈیکل اسٹور میں مجھے مل گیا۔ پوچھا۔ کیا لینے آئی ہو؟ میں نے بتایا۔ ظاہر ہے کہ یہاں دوائیں ہی ملتی ہیں، وہی لینے تھیں۔ کس کے لئے؟ | امی کے لئے۔ عجب اتفاق ہے میں بھی اپنی ماں کے لئے دوا لینے نکلا تھا۔ شاید ہماری ملاقات ہونا تھی۔ میں کئی دن سے سوچ رہی تھی آپ ملیں تو رانو کے بارے میں بتائوں۔ ہاں بتائو۔ دعا تم کر رہی تھیں، میں بھی کر رہا تھا۔ رانو خیریت سے ہے، ٹھیک ہے، تمہارا پوچھتی رہتی ہے۔ اکثر فون کرتی ہے۔ مجھے اس کا نمبر دے دو۔ اس نے کہا۔ خود خیریت معلوم کر لوں گا۔ اس نے منع کیا تھا، نہیں دے سکتی۔ اس کے ماموں اور ممانی فون اٹھاتے ہیں۔ وہ تم سے بات نہ کرسکے گی۔ اس روز ان باتوں کے سوا کوئی اور بات نہ ہوسکی۔ تاہم اس نے مجھے اپنی گاڑی میں گھر ڈراپ کر دیا۔ اس روز دل ہی دل میں یہ بات آئی۔ اے کاش رانو کی جگہ میں اس شخص کے دل میں ہوتی تو کتنا اچھا تھا۔ کبھی کبھی انسان بہت خود غرض ہو جاتا ہے۔ اب میں بھی سوچنے لگی۔ اے کاش! میری دوست لندن سے کبھی نہ لوٹے، اور میں جبران کے دل میں اس کی جگہ لے لوں۔ وه | میری بچپن کی سہیلی تھی۔ مجھے اس سے پیار تھا۔ وہ مجھ پر جان دیتی تھی۔ اعتبار کرتی اور اپنا کوئی راز مجھے سے نہ چھپاتی تھی۔ مگر انسان کا پھر بھی کیا اعتبار، سچ ہے عقلمند وہی ہوتے ہیں جو دل کے معاملات میں کسی کا بھی اعتبار نہ کریں۔ جب رانو تھی، رات دن اسی کا خیال رہتا تھا۔ وہ نہیں تھی تو سوچتی تھی کہ جبران میرا ہو جائے۔ دو چار مرتبہ وہ ملا۔ مگر حال دل اس سے چھپا لیا۔ کہیں سبک سر نہ ہو جائوں۔ جانتی تھی کہ ان کا پیار کهرا ہے کہ یہ اس راستے سے نہیں لوٹ سکتے۔ مگر دل مانتا نہ تھا۔ رفتہ رفتہ میں نے جبران سے ایسی باتیں کہنی شروع کر دیں کہ جن سے وہ رانو سے بدظن ہو جائے۔ بڑی معصومیت سے جهوٹی باتیں رانو کے بارے میں کہہ جاتی۔ یوں وہ اب باقاعدگی سے مجھے ملنے لگا۔ ایسے ہی جیسے وہ پہلے رانو سے ملا کرتا تھا۔ اسے بھی اس کے بارے میں جاننے کی جستجو ہو گئی اور غیر محسوس طریقے سے میں اسے رانو کے خلاف کرنے میں لگ گئی۔ تبھی میں نے نوٹ کیا کہ جبران پہلے جیسا نہیں رہاوہ کافی بدل گیا تھا۔ وہ اب بجها بجھا سا رہنے لگا تھا۔ میں رانو کی طرح اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ جاتی تھی۔ وہ مجھ سے باتیں کرتا جاتا۔ ہم اسی طرح مخصوص راستوں پر لمبی ڈرائیو پر جاتے مگر وہ کسی خیال میں کھویا رہتا۔ جسے وہ محض رانو کا غم غلط کرنے کو مجھ سے ملتا ہو۔ میں نے یہ بھی اسے جھوٹ بتایا کہ رانو کی شادی اس کے ماموں زاد سے ہو رہی ہے جو لندن میں رہتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ لندن گئی ہے اپنے والدین کے ساتھ، لیکن ہم کو بتا کر نہیں گئی۔ مجھے بھی اس نے کہا ہے کہ تم کو نہ بتائوں۔ جبران نے میری بات کا اعتبار کر لیا۔ یوں رانو کو بے وفا بتاکر میں نے نہ صرف اس کے جذبات کی دنیا میں جگہ بنالی بلکہ دل میں بھی گھر کرلیا۔ میں سمجھ رہی تھی کہ جبران کا دل اب میری مٹھی میں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ آج نہیں تو کل رانو کو بهلا دے گا۔ اب حالت یہ تھی کہ میں جبران کو قسمیں دیتی تھی کہ کل ضرور آنا۔ اور وہ میری قسموں کو خاموشی سے نباہ رہا تھا۔ اس کیفیت کے دوران میں نے جان بوجھ کر مگر انجان بنتے ہوئے بڑے سلیقے سے اس کو اپنی سہیلی کے غلط قسم کے قصے سنائے۔ مثلا جب وہ پندرہ سال کی تھی اور ہم میٹرک میں تھے، وہ معصوم اپنے محلے کے لڑکے سے توقع لگا بیٹھی تھی مگر وہ لڑکا خراب نکلا۔ میری سہیلی کو دکھ دے کر چلا گیا۔ اچها ہوا تمہارا ساتھ اس کو مل گیا ہے تو ماضی کا غم مٹ گیا ہے۔ غرض ایسی باتیں میرے منہ سے نکلتیں کہ جبران کا دل رانو کی طرف سے پھیر دیں۔ جانتی تھی کہ جبران ایک صاف دل انسان ہے اور وہ میری باتوں کو نہ صرف دل کے کانوں سے سنتا ہے بلکہ اعتبار بھی کرتا ہے۔ تاہم وہ اب بھی مجھ میں اتنی دلچسپی نہ لیتا تھا جس قدر کہ رانو میں لیتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اس بات پر بھی اتنا افسردہ ہو جاتا تھا کہ پتا نہیں رانو اس سے مل کر کیوں نہیں گئی۔ بغیر بتائے اتنی دور چلی گئی ہے۔ تب میں کہتی۔ اس کی آنکھوں میں لندن کے خواب سج گئے تھے۔ جبران مگر تم سمجھو گے نہیں، کہ وہ کیوں تم کو کچھ بتائے بغیر چلی گئی ہے۔ ایک دن میں اصرار کرکے اسے گھر لائی۔ امی سے ملایا۔ انہوں نے اس سے باتیں کیں۔ ان کو جبران پسند آیا۔ انہوں نے ابو سے ذکر کیا کہ لڑکا تو اچھا ہے اور ہماری شیریں کے کالج کا اسٹوڈنٹ ہے اور امیر ماں باپ کا بیٹا ہے۔ ابو نے کہا کہ شیریں چاہتی ہے تو بات چلائو۔ جبران کو بھی امی کا پیار بھرے انداز میں باتیں کرنا اچھا لگا تھا کیونکہ اس کی والده انہی دنوں فوت ہو گئی تھیں۔ وہ رقیق القلب ہو رہا تھا۔ جب میری والده ملیں، اس نے امی کو پسند کیا۔کہنے لگا یہ تو میری ماں جیسی ہی شفیق اور نرم لہجے میں بات کرنے والی ہیں۔ اب میری اور اس کی شادی کی راہیں ہموار ہوگئی تھیں۔ میرے گھر والے رضامند تھے اور ہماری ملاقاتیں بھی جاری تھیں۔ مگر وه نیم رضا مند تھا۔ میں نے جان بوجھ کر اس کو اس قدر قریب کر لیا کہ بالآخر اس نے میری خوشی کے لئے مجھے اپنانے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ ایک دن جبران کے والد میرے ابو سے ملنے آئے اور میرے والدین نے رشتہ کی بات چلا دی۔ یوں رشتہ طے ہو گیا اور ہمارا نکاح بھی ہو گیا۔ میں دلہن بن کر جبران کے گھر آگئی۔ میری دلی تمنا پوری ہو گئی۔ جبران میرا ہوگیا۔ وہی نہیں اس کا شاندار گهر، زندگی کی سب آسائشیں، میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اتنی خوش قسمت رہوں گی۔ میں اپنی چال پر نازاں اور کامیابی پر مسرور تھی۔ میری زندگی قابل رشک تھی۔ لیکن جب کبھی رانو کے بارے میں سوچتی تو دل دھڑکنے لگتا تھا۔ اسے گئے چھ ماہ ہونے والے تھے۔ اس کا آپریشن کامیاب رہا تھا۔ وہ اب مکمل طور پر صحت یاب ہو چکی تھی۔ وہ مجھے فون کرتی تھی لیکن میں امی کے گھر نہ ہوتی۔ وہ کہتیں کہ اس کی شادی ہوگئی ہے۔ امی کو میں نے منع کیا تھا کہ میرا نمبر اس کو نہ دینا، اسے میں سرپرائز دوں گی۔ جبران کو بھی نہ بتاتی تھی کہ وہ فون کرتی رہتی ہے۔ اس نے اسے خطوط بھی لکھے لیکن یہ خطوط جبران کو میں نے نہ دیئے کہ اس کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ البتہ میں یہ ضرور جبران کو بتاتی تھی کہ اس کی امی سے پتا چلا ہے لندن میں اپنے ماموں زاد سے اس کی شادی ہو گئی ہے۔ وہ اب نجانے کب آئے گی۔ اس بات سے جبران کے دل کو تکلیف پہنچتی تھی۔ وہ کہتے۔ شیریں۔ خدارا ... اب اس کا ذکر مت کرو، ہمارے راستے جدا ہوچکے ہیں۔ جب میں اپنے جیون ساتھی کو افسرده لبوں سے ایسی باتیں کرتے سنتی، میرا ضمير ملامت کرتا کہ میں نے دو پیار کرنے والوں کو دھوکے میں رکھا ہے اور اپنا گھر بسا لیا ہے۔ ان دونوں کی خوشیوں کی قاتل ہوں۔ لیکن پھر اپنی زندگی کی خوشیاں اور عیش و آرام دیکھتی جو ضمیر کی آواز کو دبا لیتی تھی کہ دنیا میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔ میں نے کون سی انوکھی بات کی ہے۔ شادی کا بندهن مذاق تو نہ تھا۔ جبران اور میں میاں بیوی کے رشتے سے منسلک تھے۔ میں ان دنوں یہی سمجھ رہی تھی کہ ہم پیار کے مضبوط بندھن میں بندھ گئے ہیں، اب ہم کو کوئی جدا نہیں کرسکتا۔ ایک روز میکے گئی تو پتا چلا کہ رانو لندن سے لوٹ آئی ہے۔ وہ کافی کمزور ہوگئی تھی، تاہم دل کا نقص دور ہوگیا تھا۔ اسے پتا چلا کہ میں میکے آئی ہوں تو وہ دوڑی آئی، بغیر آرا کئے۔ کیونکہ وہ مجھ سے پیار کرتی تھی۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھ کر چلی گئی۔ وہ مجھ سے مل کر خوش تھی لیکن میں اندر سے سہم گئی تھی۔ اس کو ابھی تک یہ معلوم نہ تھا کہ میری شادی اس کے جبران سے ہو گئی ہے۔ اگلے دن جب میں گھر جانے کی تیاری کر رہی تھی، وہ پھر سے آگئی۔ اسی وقت مجھے لینے جبران بھی آگئے۔ دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو میری جان ہی نکل گئی۔ سارا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ وہ جس والہانہ انداز سے مجه سے لپٹ کر ملی تھی، میں سخت خجل ہو رہی تھی اور اس کا پہلا سوال یہی تھا۔ اچها بتائو جبران کیسا ہے۔ تم اس سے ملتی تھیں یا نہیں؟ اور اب جبران سامنے کھڑا تھا۔ اس کی بے قراری دیکھ کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی۔ اس دل کی مریضہ کو کیا کہتی کہ جس کا حال ہی میں آپریشن ہوا تھا اور ڈاکٹر نے اس کو خوش رہنے کی تلقین کی تھی۔ میں اس کو دیکھ کر نڈھال سی ہوگئی۔ چہرے سے قدرتی ردعمل عیاں تھا کہ مجھے اس کے آنے سے کوئی خوشی نہ ہوئی تھی بلکہ شدید پریشانی نے گھیر لیا تھا۔ تبھی اس نے کہا۔ کیا بات ہے شیری، تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو؟ اور جو میں چھپا رہی تھی وہی اب اس کے سامنے تھا۔ وہ حیرت سے جبران کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے کہا۔ رانو کیا دیکھ رہی ہو۔ اس گھر کے داماد ہیں۔ تبھی یہاں آئے ہیں۔ وہ حیرت سے جبران کو دیکھ رہی تھی۔ کیا کہہ رہی ہو تم؟ ہاں صحیح کہہ رہی ہوں۔ ان کو ڈر تھا اگر تمہاری وفات کی اطلاع ملی خداناخواستہ تو یہ صدمہ نہ سہہ سکیں گے۔ تبھی انہوں نے گھبرا کر میرا ہاتھ تھام لیا تاکہ اگر کوئی ایسی ویسی خبر ملے تو ان کو زندہ رہنے کا سہارا مل جائے۔ میں دونوں کے منہ پر کیسا بے کا جھوٹ بول رہی تھی۔ تبھی جبران نے مجھے گھورا۔ یہ کیا بکواس ہے؟ صاف بات کہو۔ کتنے جھوٹ بولے ہیں تم نے مجھ سے اب تک، رانو نے میرا ٹھنڈا ہاتھ پکڑ لیا۔ گویا کہ میں اس کے سامنے بہکی بہکی باتیں، دماغ کے خلل کی وجہ سے کر گئی تھی۔ وہ مجھے دلاسہ دینے لگی اور اس کے سامنے میں خود کو حقیر سمجھنے لگی۔ تبھی میں نے کہا۔ جبران نے مجھ سے شادی کرلی ہے رانو، تم سے ناامید ہو کر ایسا کہتے ہوئے میں نے گویا اس کے اعتبار کو ریزه ریزه کر دیا تھا۔ پھر بھی وہ مضبوطی سے میرے سامنے کھڑی تھی، ایک بلند پہاڑ کی مانند. اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ بولی۔ کیوں مذاق کرتی ہو۔ دیکھو جبران ذرا اس شوخ کو ... تبھی میں نے دیوار پر لگی شادی کی تصویر کی طرف اشاره کیا اور اس کی امیدوں کے تمام چراغوں کو بجھا دیا۔ لمحہ بھر کو وہ اپنی پانچوں حسوں سے محروم اندهی، بہری اور گونگی بن گئی، پھر بغیر کچھ کہے سنے میرے گھر سے چلی گئی۔ خدا جانے لڑکھڑاتے قدموں سے وه کیسے اپنے گھر تک پہنچی ہوگی۔ اس روز جبران بھی مجھ سے کلام کئے بغیر اپنے گھر واپس چلے گئے۔ مجھے ایک لفظ نہ کہا تو میں یہی سمجھی کہ ... کیا کہہ سکتے ہیں اب؟ آخر تو میں ان کی بیوی ہوں۔ ذرا غصہ ٹھنڈا ہوگا تو آپ ہی لینے آجائیں گے۔ انہوں نے گھر جا کر بھی فون نہ کیا تو میں پریشان ہوگئی۔ میں نے سسر صاحب کو فون کیا کہ جبران کو بھیج دیں۔ میری طبیعت بہت خراب ہے۔ وہ آگئے۔ لیکن ان کے تھوڑی دیر بعد رانو بھی آگئی۔ میں نے کہا آئو بیٹھو۔ بولی۔ میں بیٹھنے نہیں آئی۔ صرف ایک بات پوچھنے آئی ہوں تم دونوں سے کہ کیا یہی ہے تمہارا اعتبار اور تمہاری محبت کہ تم نے میرے جاتے ہی آپس میں پیار کی پینگیں بڑھالیں؟ پهر وه جبران سے مخاطب ہوئی۔ اور وہ تمہاری جھوٹی قسمیں...؟ شاید میں ہی نادان تھی کہ تمہارے فریب کو نہ سمجھی اور تمہارا انتظار کرتی رہی۔ کتنے گھٹیا انسان تھے تم کہ تم نے مجھے کھلونا سمجها اور جب پتا چلا کہ میرے دل میں نقص ہے تم نے مجھے بهلا دیا۔ جبران خاموشی سے سنتا رہا۔ میری بھی ہمت نہ ہوئی کہ کچھ کہوں۔ وہ یہ کہہ کر چلی گئی تو جبران بھی اس کے پیچھے چلے گئے۔ میکے میں دن گزرا۔ رات بھی گزر گئی۔ دوسری رات بھی آئی اور اپنا خالی دامن جهاڑ کر چلتی بنی۔ یہاں تک کہ یونہی جبران کے انتظار میں ہفتہ گزر گیا۔ ان دنوں کی اذیت بیکراں تھی۔ میں جیتی تھی اور نہ مرتی تھی۔ ہر آہٹ پر گمان ہوتا تھا کہ جبران آئے ہیں مگر وہ نہیں آئے۔ اس جان لیوا انتظار سے دل گھبرا گیا۔ سارا وجود ہی ایک جلتے ہوئے شعلے سے راکھ کا ڈھیر محسوس ہونے لگا۔ تنگ آکر میں امی کے گھر سے چلی آئی کہ شاید وہ اپنے گھر مجھے معاف کر دیں۔ انہوں نے اپنے گھر بھی آنا چھوڑ دیا۔ ایک دن انہوں نے باہر سے اپنی والدہ کو فون کیا۔ میں نے ان سے لے لیا۔ کہا۔ جبران لوٹ آئو، معاف کر دو مجھے، میں نے یہ سب تمہاری محبت میں اور تم کو پانے کے لئے کیا۔ تم نے جو کچھ کیا، اچھا نہیں کیا۔ تم نے ہم کو ہی نہیں، خود کو بھی دھوکا دیا ہے۔ تم نے کتنے بہت سے جھوٹ بول کر مجھے رانو سے جدا کر دیا۔ میرے دل میں اس کے لئے بدگمانی پیدا کی مگر سچ جانو میں اس سے پھر بھی نفرت نہیں کرسکا۔ آج بھی میرے دل میں اس کے لئے وہی محبت اور چاہت ہے جو پہلے دن سے تھی۔ میں نے تمہاری خواہش کو ٹھکرایا نہیں، عزت دی تو رانو کی سہیلی جان کر تمہارا دل نہیں توڑا۔ مگر میں نے محبت رانو سے ہی کی ہے لیکن اب پتا چل گیا ہے کہ تم اس کی دوست نہیں دشمن ہو تو میں تمہارے ساتھ باقی زندگی جھوٹ کے سہارے نہیں گزار سکتا۔ میں یہ زبردستی کا بندهن زبردستی نہیں نباہ سکتا۔ میں کل ہی رانو سے نکاح کر رہا ہوں۔ میں نے اس کی غلط فہمی دور کر دی ہے اور وہ اب میرے ساتھ ہے۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔ تم میرے ساتھ رہو یا نہ رہو۔ اس کا فیصلہ تم خود ہی کر لو۔ جب تک تم چاہو میرے گھر رہو مگر میں تمہارے ہوتے ہوئے اپنے گھر نہیں آئوں گا۔ جب تم میکے چلی جائو گی تب ہی آئوں گا۔ طلاق چاہو گی تو طلاق دے دوں گا، جیسا تم چاہو خود فیصلہ کرلینا۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے مگر میں نے اپنے دل کو ہلکا پھلکا محسوس کیا اور میں اسی شام اپنے میکے آگئی۔ مجھے دکھ تو بے حد تھا مگر اس بوجھ سے نجات مل گئی جو میرے دل پر تھا۔ اب اپنے ماں باپ کے گھر رہتی ہوں۔ سسر ہر ماہ خرچہ بھجوا دیتے ہیں۔ جبران نہیں آتے تو میں سوچتی ہوں، وہ ناراض سہی کچھ بھی سہی ۔ ان سے ایک ناتا تو ہے


Post a Comment

0 Comments