Khawab Aur Sayee | Teen Auratien Teen Kahaniyan | Urdu Kahani | Urdu Story

Khawab Aur Sayee | Teen Auratien Teen Kahaniyan | Urdu Kahani | Urdu Story
Khawab Aur Sayee | Teen Auratien Teen Kahaniyan | Urdu Kahani | Urdu Story

 


کافی سال پہلے کا ذکر ہے۔ ایک جہاز نے ٹورنٹو سے انڈیا کے لئے اڑان بهری. جہاز میں زیادہ تر مسافر سکھ تھے۔ وہ اپنے وطن جارہے تھے۔ کینیڈین شہریت حاصل کرنے کے بعد کوئی پہلی مرتبہ وطن لوٹ رہا تھا اور کوئی طالب علم، والدین سے ملنے جارہا تھا۔ ان میں ایک ایسی مسافر بھی تھی جو دلہن بنی شوہر کے ہمراہ کینیڈا آئی تھی اور اب برسوں بعد ننھے منے بچوں کو لے کر ماں باپ سے ملنے جارہی تھی۔ ان میں سے ہر ایک کی آنکھوں میں اپنے پیاروں سے ملنے کی خوشی تھی۔ انہی میں ایک مسافر مکھن سنگھ بھی تھا جو اپنی منگیتر پریتم کور سے وعده کرکے اس کی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کو بوسہ دے کر، اس کی طرف دیکھے بغیر چلا آیا تھا کیونکہ آخری انائونسمنٹ ہوچکی تھی۔ اس کی منگیتر بھیگی آنکھوں سے اس کو اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک کہ وہ جہاز کے اندر داخل ہوکر نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا۔ محبوب منگیتر کو لڑکی الوداع کرکے بوجھل قدموں سے گاڑی کی طرف آگئی۔ وہ اور مکھن سنگھ ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ دونوں کا ساتھ کالج کے زمانے سے شروع ہوا تھا۔ مکھن سنگھ جالندهر سے ایروناٹیکل انجینئرنگ میں ڈگری لینے آیا تھا۔ پریتم کور کا خاندان دو نسلوں سے ٹورنٹو میں رہ رہا تھا مگر وہ اپنی اقدار پر سختی سے قائم تھے۔ ابھی تک ان کی کسی لڑکی نے کینیڈین ماحول کو نہیں اپنایا تھا۔ مسلمان گھرانوں کی طرح اس سکھ خاندان کو بھی اپنے خاندانی اصولوں کا علم تھا۔ ان کو بھی بزرگوں نے سختی سے تاکید کی تھی کہ وہ اپنی روایات سے روگردانی نہیں کریں گے۔ ان کی کوئی لڑکی اگر کسی لڑکے کو پسند کرے گی تو شادی کے لئے اس کا سکھ ہونا لازمی ہے۔ پریتم کور اور مکھن سنگھ کی ملاقات ایک مشترکہ دوست کی سالگرہ اور پھر اس کی شادی کی تقریب میں ہوئی تھی۔ دونوں بیٹھے باتیں کرتے رہے، تبھی انہی انمول لمحات سے دل کی دھڑکنوں نے ان کو یہ نوید سنائی کہ وہ صرف ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں۔ مکھن سنگھ کالج کی چھٹی


Kahan Millo Gi | Teen Auratien Teen Kahaniyan | Urdu Story


کے بعد پریتم کور کے کالج أجاتا۔ دونوں گھنٹوں جالندھر کی باتیں کرتے۔ پریتم وہاں کے محلوں، گلیوں اور باغوں کی خبریں بڑی دلچسپی سے سنتی تھی کیونکہ ان جگہوں کا نام اس نے اپنے ماتا،پتا سے بارہا سن رکھا تھا۔ پارک کے سبزہ زار میں پڑا ایک بینچ ان کا خاص ٹھکانہ تھا۔ اس نے تعلیم مکمل کرلی تھی اور والدین کو اس کی شادی کی فکر تھی۔ وہ عام سکھ لڑکیوں کی طرح ایک خاص کشش کی مالک تھی۔ اللہ جانے اس کی آنکھوں کیا خاص کشش تھی کہ یہ آنکھیں ایک مقناطیس کی مانند دونوں کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتی تھیں۔ اسی کشش نے مکھن سنگھ کو اس سنہری رنگت والی پریتم کا دیوانہ بنا دیا تھا۔ والدین نے جب اس کی شادی کے سلسلے میں بات کی تو وہ خاموش ہوگئی۔ اس خوف میں مبتلا تھی کہ اگر اس کے والد نے مکھن سنگھ کے گھرانے کے بارے میں جالندهر اس کے دادا کو لکها جو گوجرانوالہ کے کسی گائوں سے ہجرت کرکے آئے تھے تو دادا کو ان کے خاندانی پیشے یعنی بڑھئی ہونے کا علم بھی ہوجائے گا۔ اگرچہ مکھن سنگھ کے دادا لکڑی کے کام میں ماہر جانے جاتے تھے مگر پریتم کو یہ ڈر تھا کہ کوئی اس کے والد کو اس کے خاندان کے بارے میں کوئی ناگوار بات نہ بتا دے۔ پریتم نے تبھی بڑی بہن سے جو ڈاکٹر تھی، مدد لی تو دیدی نے مکھن سنگھ کو گھر بلا کر باقاعده انٹرویو لیا۔ وہ اس بات سے متاثر تھی کہ وہ نوجوان ایروناٹیکل انجینئر بننے والا تھا اور یقینا ایک روشن مستقبل اس کا منتظر تھا۔ یوں پریتم کی بڑی بہن نے والدین سے بات کرکے ان کو قائل کرلیا کہ وہ دادا | کو بتائے بغیر یہ شادی کردیں کیونکہ ان بزرگ کو ہر کام میں رخنہ ڈالنے کی عادت تھی، ضرور پوتی کے ہونے والے سسرال کو ناقبول کرتے ہوئے کچھ گڑبڑ بھی کرسکتے تھے۔ اس لڑکی کی برادری کے کچھ لوگ کینیڈا میں بھی مقیم تھے۔ ان کا گوردوارے میں بائیکاٹ کرسکتے تھے، تب اپنی کمیونٹی سے باہر رہنا مشکل تھا۔ پریتم کور کے والدین کو مکھن سنگھ میں کوئی عیب نظر نہ آیا۔ مکهن نے اپنے ماں، باپ سے شادی کی اجازت لے لی تھی۔ ان کے پیش نظر یہ بھی خیال تھا کہ اس لڑکی سے شادی کے بعد وہ بہ آسانی کینیڈین شہری بن جائے گا مگر یہ نوجوان پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتا تھا تبھی اس نے صرف منگنی کی درخواست کی۔ منگنی کے دن دونوں نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنا کر منہ میٹھا کردیا۔ دونوں بہت خوش تھے۔ ابھی اس رسم کو دو ماہ ہوئے تھے کہ جالندهر سے مکھن سنگھ کے پتا کا فون آیا کہ اس کی ماں پر اچانک دل کا شدید دورہ پڑا ہے، وہ فورأ أجائے۔ اس کی ماں ہوش میں آنے کے بعد بار بار پوچھتی تھی کہ مکھن کہاں ہے؟ چونکہ باپ وكيل تھا، اس نے بھی سوچا کہ مکھن آجائے تاکہ ماں کی زمین دونوں لڑکوں کے نام اس کی زندگی میں منتقل ہوجائے۔ اس کارروائی کے لئے دونوں بیٹوں کا موجود ہونا ضروری تھا۔ مکھن سنگھ نے یہ خبر پریتم کور کو سنائی اور وعدہ کیا کہ وہ جلد از جلد واپس آجائے گا۔ یوں وہ اس کو الوداع کہہ کر جہاز میں سوار ہوا تھا۔ گھر پہنچ کر وہ بے دلی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ چند گھنٹے اسی بے کیفی میں گزرے ہوں گے کہ اس کو ٹی وی دیکھتے ہوئی ماں کی چیخ سنائی دی۔ وه گھبرا کر کمرے سے نکلی تو باپ کے رخساروں پر بھی آنسو بہتے دیکھے۔ خبروں میں یہ خبر نمایاں تھی کہ ایک ہوائی جہاز تھوڑی دیر پہلے کریش ہوگیا ہے۔ یہ وہی جہاز تھا جس پر مکھن سنگھ جالندھر جارہا تھا۔ کوئی مسافر اور نہ ہی عملے کا کوئی فرد بچ سکا تھا۔ یہ خبر تھی یا آتشیں کوڑا جو اس کے دل و دماغ پر پڑا تھا۔ وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس کو نہیں معلوم کہ وہ کب تک وہاں بیٹھی رہی۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ اسپتال کے بستر پر تھی اور اس کی ڈاکٹر بہن خاموش و آداس چہرے کے ساتھ کرسی پر بیٹھی تھی۔ اس نے ہوش کی دنیا کو تقدیر کے اس سنگدلانہ فیصلے کے باوجود پوری طرح خیرباد نہ کہا تھا مگر اپنی ناآسوده خواہش کو پورا کرنے کے لئے اس نے اپنے خیالوں کے شبستان میں ایک ایسی دنیا سجا لی تھی جس میں کسی کا گزر نہ تھا۔ اس نے اسپتال سے آکر ہاتھوں میں مہندی لگائی، اپنی منگنی کی ساڑھی پہنی، اپنی انگوٹھی کو چوم کر انگلی میں ڈالا اور بہت سی گولڈن اور سرخ و سبز چوڑیاں کلائی بھر کر پہن لیں۔ وہ اپنے خیالوں میں ’’جھیل ڈل،، میں تیرتے کنول میں بربط بجاتی ساحل کی طرف مسکرا کر دیکھتی جہاں اس کے خوابوں کا شہزادہ مکھن سنگھ اس کو نظر آتا۔ کبھی وہ خود کو گلابوں کی بیل کے درمیان دیکھ کر کہتی۔ دیکھو! مکھن سنگھ اس بیل میں چھپ رہا ہے۔ اس کی بہن نے بڑی تندہی سے اس کا علاج کیا لیکن وہ ہوش کی دنیا میں پوری طرح واپس نہ آسکی۔ اس قدر ضرور ہوا کہ پاگل ہونے سے بچ گئی۔ اس نے تصورات کی الگ ہی دنیا بسالی اور مستقل سرخ ساڑھی، چوڑیوں اور مہندی سے رشتہ جوڑ لیا۔ اس نے گھر والوں کو وصیت کردی تھی کہ جب وہ اس دنیا سے جائے تو اس کو منگنی کی ساڑھی میں لپیٹ کر چتا پر رکها جائے۔ جہاں تک میرے علم میں ہے، ہندوئوں اور سکھوں میں سہاگن کو اس کی شادی کی ساڑھی میں لپیٹ کر نذر آتش کیا جاتا ہے اور پریتم بھی خود کو سہاگن سمجھتی تھی۔ جب میں کینیڈا میں وہ مشہور آبشار دیکھنے گئی جو خدائے وجود کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بہتے پانی کا بہت شور تھا۔ لوگوں کا ہجوم اللہ کے اس شاہکار کو دیکھنے میں محو تھا اور اس ہجوم میں وہ سرخ ساڑھی میں ملبوس، سر میں جوہی کی کلیوں کا ہار سجائے، اپنی پیٹھ میری میری جانب کئے کھڑی تھی۔ میں اس کو سامنے سے دیکھنے کو قدرے آگے بڑھی تھی کہ ایک خاتون آکر مجھ سے لپٹ گئی۔ میں نے اس کو دیکھا، وه منجیت کور تهی جو شادی کے بعد امریکا سے کینیڈا چلی گئی تھی۔ منجیت کور نے مجھے اس دلہن کے سامنے کیا تو میں حیران رہ گئی کہ جس کو میں کوئی کم عمر دلہن سمجھ رہی تھی، وہ ایک پختہ عمر کی عورت تھی۔ منجیت نے اس کا تعارف کروایا کہ یہ اس کے پتی دیو کی بوا (پھوپھی) ہیں۔ میں آنکھیں پھاڑے حیرت کے ساتھ اس کو تکنے لگی۔ وہ شاید اس قسم کے ردعمل کی عادی تھی۔ بغیر نروس ہوئے اس نے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا اور معقول طریقے سے بات کرنے لگی۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ خاصی پڑھی لکھی اور شائستہ ہے مگر اس کا ایسا حلیہ کیوں؟ یہی سوچتی رہ گئی۔ منجیت کور نے مجھ کو گھر آنے کی دعوت دی۔ اس کا شوہر اور وہ مجھے اپنے گھر لے گئے۔ منجیت کور کو اس کے شوہر نے اپنی پھوپھی کے ساتھ پیش آنے والی ٹریجڈی سے مجھے آگاہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا ہے کہ وہ اگر اس حلیے میں رہنا چاہتی ہے تو اس کو نہ چھیڑا جائے ورنہ وہ پاگل ہوجائے گی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی دنیا میں زندہ ہیں۔ وہ ہمارے درمیان رہتے ہوئے اپنی دنیا بسائے رہتے ہیں۔ یاسمین چشتی

Post a Comment

0 Comments