Kahan Millo Gi | Teen Auratien Teen Kahaniyan | Urdu Story


 


مکان مکمل ہوا تو کچھ قرضہ بہم پر چڑھ گیا، تبھی نئے گھر کے ایک حصہ کو کرایے پر اٹھانا پڑا۔نئے کرایہ دار لٹے پٹے مگر شریف لوگ تھے کیونکہ اس وقت نیا نیا پاکستان بنا تھا اور وہ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ اس کنبے کے سربراہ کا نام لطيف احمد تھا۔ وہ کم گو اور سنجیدہ قسم کا | انسان تھا، کسی سے ملتا جلتا نہ تھا، صورت سے پریشانی ٹپکتی تھی۔ لگتا تھا کہ کسی بڑی الجھن کا شکار ہے۔ نئے کرایے دار ہونے کے ناتے ہم لوگوں نے اس کے ذاتی معاملات میں مداخلت کو مناسب خیال نہ کیا۔ محلے داروں سے بھی اس نے دعا سلام نہ رکھی۔ وہ ہر کسی سے کترا کر نکلتا تبھی لوگ بھی اس سے آنکھیں چرانے لگے۔ ہمارا کرایہ دار ہوئے اس کو صرف چھ ماہ گزرے تھے کہ ایک روز صبح صبح اس کے گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم نے مکان اس طرح بنوایا تھا کہ دوگیٹ تھے۔ ایک ہماری طرف اور دوسرا کرایے دار کی طرف اور درمیان میں صحن کے دیوار اٹھا دی تھی۔ جب دیوار کے ادهر سے دبی دبی سسکیاں سنائی دیں تو میرے خاوند نے جاکر ان کا گیٹ بجایا، پتا چلا کہ الطيف احمد اس جہاں سے گزر گیا ہے۔ دلی افسوس ہوا۔ میں نے اسی وقت سر پر برقع ڈالا اور ان کے یہاں چلی گئی۔ الطیف کی تینوں بیٹیاں جن کی عمریں بالترتیب سولہ، اٹھارہ اور بیس برس تھیں، بری طرح رو رہی تھیں۔ اور بیوه دوپٹے میں منہ دئیے سسک رہی تھی۔ ان کا لڑکا بارہ برس کا تھا جو ہونق سا ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر میں پریشان ہوگئی۔ ہمت نہ پڑتی تھی کہ مرحوم کی بيوه سے کیونکر بات کروں۔ لڑکیوں کو گلے لگایا۔ وہ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں، ان کو بلکتے دیکھا کر جی بھر آیا۔ بڑی لڑکی سے سوال کیا یہ اچانک تمہارے ابا کو کیا ہوا؟ کیا بیمار تھے؟ ہچکیاں لیتے ہوئے کہنے لگی۔ نہیں ان کو اپنے دو جوان لڑکوں کے شہید ہوجانے کا دکھ تھا۔ وہ ہجرت کے سفر میں بلوے میں مارے گئے

اس غمزدہ خاندان کی داستان ہجرت بہت درد ناک تھی۔ جب کچھ دنوں بعد الطیف کی بیوہ سے حالات معلوم ہوئے، مجھے اور میرے میاں کو ان سے ہمدردی ہوگئی۔ اور ہم نے ان کا خیال رکھنا شروع کردیا۔ کیونکہ اب ہم کو احساس ہوا کہ ہم سے بھی غفلت ہوئی ہے۔ پہلے ہی لطیف احمد کی پریشانی پوچھ لی ہوتی۔ اگر ہم اس کی دل جوئی کرتے، ممکن ہے کہ اس کے بعد ان کی خودکشی کی بری خبر سننے کو نہ ملتی۔ افسوس کہ ایسے نامساعد حالات میں بھی کچھ لوگ تماشائی بن جاتے ہیں اور غمزدہ خاندان کا غم بانٹنے کی بجائے ان کی پریشانیاں بڑها دیتے ہیں، ہمارے محلے میں دو بدنیت آدمی ایسے بھی تھے جنہوں نے تھانے میں جاکر یہ رپورٹ درج کرادی کہ لطيف احمد نے اپنے گھر والوں سے تنگ آکر خودکشی کی ہے۔ انہوں نے شک ظاہر کیا کہ گھر کی خواتین کے بیچ کوئی ایسا غیراخلاقی مسئلہ موجود تھا جس کی وجہ سے لطیف احمد کی غیرت نے اس کو خودکشی کرنے پر مجبور کردیا۔ یہ رپورٹ مرحوم کے گھر کی خواتین کے لئے بے حد پریشانی کا باعث تھی کیونکہ پولیس کا بار بار آنا احسن بات نہ تھی۔ ان دنوں میرا بیٹا ایک اچھے عہدے پر فائز ہوا تھا اور محلے بھر میں میرے شاہد کا رعب داب تھا۔ میں نے جب شاہد کو اپنے کرایے داروں کی مصیبت سے آگاہ کیا تو اس نے ان بے یارومددگار خواتین کی مدد کو ٹھان لی۔ شاہد کا پولیس افسران سے تعلق رہتا تھا۔ ان لوگوں کو جب حالات سے آگاہ کیا گیا، انہوں نے بچاری خواتین کی مدد کی اور ان کو پولیس کی پریشانی سے نجات مل گئی۔ کیس بھی ختم کرادیا۔ جس پر لطیف مرحوم کی بیوہ اور بچیوں نے سکھ کا سانس لیا۔ ہم نے ان کی مدد بغیر کسی لالچ صرف انسانی ہمدردی کی بنا پر کی تھی۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ ہمارے بے حد شکر گزار تھے۔ ماں اور بیٹیاں بات بات پر ہمیں دعائیں دیتی تھیں۔ ایک دن لطیف کی بیوه صغری ہمارے گھر آئی اور ایک نئی پریشانی بیان کی کہ ان کو کلیم میں ایک مکان الاٹ ہوا ہے جس کو اس کا دیور ہضم کرنا چاہتا ہے۔ اس معاملے میں بھی شاہد نے مدد کی۔ یوں ان کو اور ان کی اولاد کو حق مل گیا۔ اس کیس میں جو خرچہ آیا وہ بھی ہم نے کیا تاکہ ان غریبوں کو رہنے کا ٹھکانہ مل جائے۔ وہ اس قدر مشکور ہوئیں کہ روز ہی ان کی بچیاں ہمارے گھر آنے لگیں اور گھر کے کام کاج میں میرا ہاتھ بٹانے لگیں۔ انہی دنوں ان کی منجهلی بیٹی کو شاید پسندیدگی کی نظروں سے دیکھنے لگا۔ تبھی میں ذرا | گھبرائی کہ بیٹے کا رشتہ اس کے چچا کی بیٹی سے طے تھا۔ اندیشہ ہوا کہیں ایسا نہ ہو کہ شاید اپنی منگیتر سے شادی کرنے سے انکار کردے۔ یہ معاملہ یوں بھی سنگین تھا۔ شاہد کے ابا اپنے بھائی سے بہت محبت کرتے تھے اور وہ بہرطور اپنی بھیتجی زاہده ہی کو بہو بنانا چاہتے تھے۔ کچھ دنوں سے نوٹ کررہی تھی کہ صغری کی بیٹی زیبا شاہد کو دیکھتے ہی گلنار ہوجاتی۔ وہ بات کرتا تو شرما جاتی، ادهر ادهر چهپنے لگتی۔ اس کی انہی اداؤں نے مجھے ان دونوں کی جانب متوجہ کیا اور یہ بات میری سمجھ میں آگئی ہو نہ ہو کچھ ہونے والا ہے۔ ادهر روز روز ان لڑکیوں کے ہمارے گھر آنے جانے سے محلے داروں نے ہمارے بارے میں باتیں بنانا شروع کردیں۔ گرچہ وہ ہمارے ابھی تک کرایے دار تھے مگر اب ان کے گھر کا سربراہ نہ رہا تھا تو لوگوں کا باتیں بنانا کچھ معنی رکهتا تها۔ جس گھر بیٹیاں جوان ہوں اور سربراہ بھی نہ رہے، لوگوں کی اس گھرانے پر نظریں جمی رہتی ہیں۔ صغر کے دیور تو پہلے ہی ان کے کیس میں مدد کرنے کی وجہ سے ہم سے دشمنی کئے بیٹھے تھے۔ ایک روز وہ کچھ قریبی رشتہ داروں کے ہمراہ صغری کے گھر آئے اور کہا کہ تم یہ کرایے کا مکان چھوڑ دو... کیوں کرایہ بھر رہی ہو۔ اپنے مکان میں چل کر رہو۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم سے کم کرایہ لیتے ہیں جبکہ وہ مکان زیاده کرایے پر چڑها ہے۔ دو منزلہ ہے تو کرایہ ڈبل آتا ہے۔ ہمارا گزارا اسی کرایے سے ہوتا ہے لہذا ہم اگر وہاں جا رہیں گے تو گزارہ کیسے ہوگا۔ دیور نے کہا کہ ہم خرچہ اٹھالیں گے۔ تم لوگ بس یہاں سے چلو. صغری راضی نہ ہوئی۔ بولی جب میرے میاں کے نام الاٹ ہونے والا مکان تم نے قبضہ میں کیا تب ہمارے بارے میں نہ سوچا۔ اس کو پانے کی خاطر کیس کیا۔ اتنا خرچہ مجه بيوه بهابهی سے تم ہی نے کروایا تب نہ سوچا۔ اب کیوں اچانک ہمدردی ہوگئی ہے۔ مجھے تم پر اعتبار نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ انہوں نے دیور کے ساتھ جانے سے انکار کردیا جس پر وہ اور ان کے دشمن ہوگئے اور میرے بیٹے پر الزام لگا دیا کہ اس نے ورغلا رکھا ہے میری بھابھی کو۔ جو ایک غلط عورت ہے۔ میری بھتیجیاں اس عورت کی سرپرستی میں محفوظ نہیں ہیں۔ اس شخص نے ہمارے کچھ محلے داروں کے سامنے بھی واویلا کیا اور ان کی توجہ ادهر مبذول کرائی جس پر وہ ہم کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے۔ تب صغری نے شاہد سے کہا۔ بیٹے اگر تم میری زیبا سے نکاح کرلو تو مجھے سکون مل جائے گا اور آپ جیسے اچھے لوگوں سے مضبوط رشتہ بھی جڑ جائے گا تو لوگ مجھ کو بے آسرا سمجھ کر تنگ نہیں کریں گے۔ یہ بھنک میرے شوہر کے کانوں میں پڑی، وہ سخت برہم ہوئے۔ مجھ سے کہا کہ خاتون کو سمجھا دوکہ آئندہ وہ ایسی کوئی امید ہم سے نہ لگائیں ورنہ میں خدا ترسی نہ کرپاؤں گا اور فورا ان سے اپنا مکان خالی کروا لوں گا۔ میں نے شاہد کا رشتہ اپنے بھائی کی بیٹی سے طے کردیا ہے۔ یہ ناتا نہ ٹوٹنے پائے، ورنہ برا ہوگا۔ میں تو پہلے ہی جانتی تھی کہ وہ ایسا ضرور کریں گے۔ ابھی تک بات میرے اور شاہد کے درمیان تھی۔ لہذا میں نے صغری سے اپنے میاں کی برہمی کا کوئی ذکر نہ کیا۔ مبادا ان کو دکھ پہنچے۔ سوچا کہ شاید تو میرا بیٹا ہے۔ اس کو باور کرایے دیتی ہوں کہ ایسا کچھ سوچنا بھی نہیں ورنہ تمہارے والد ہنگامہ کردیں گے۔ وہ دل کے مریض ہیں، ایسا نہ ہو کچھ صدمہ لے لیں اور ہم کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ ادهر ہمارے یہاں یہ کھچڑی پک رہی تھی۔ ادھر صغری کے دیور نے ان سے لڑائی ٹھان رکھی تھی۔ وہ دوبارہ اپنے کچھ رشتے داروں کے ساتھ آئے اور بهاوج پر دباؤ ڈالا کہ وہ کرایے کا مکان چھوڑ کر ان کے ہمراہ چلے... تاکہ بچیوں کے رشتے ناتوں کا سلسلہ شروع کیا جائے اور وہ وقت سے بیاہی جائیں۔ ان سے جان چھڑانے کو صغری نے کہہ دیا کہ اس نے اپنی بچیوں کے رشتے ناتے طے کرنا شروع کردئیے ہیں اور ان کے مالک مکان اس وجہ سے ان کی مدد کرتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے لئے ان کی ایک بیٹی کا رشتہ لے چکے ہیں۔ یہ ان کا بیان سراسر غلط تھا لیکن دیور سے جان چھڑانے کو انہوں نے یہ بات کہہ دی تھی کہ وہ شاہد سے زیبا کی منگنی کرچکی ہیں، لہذا | اس کی شادی ہونے تک جہاں مقیم ہیں وہیں رہیں گی۔ وہ لوگ چلے گئے اور صغری ایک بڑے جھگڑے اور پریشانی سے بچ گئی۔ بعد میں اس نے خود، کچھ کو یہ احوال دیا تو میں انگشت بہ دنداں رہ گئی۔ اس پر اس نے معافی مانگی اور کہا کہ میں مجبور تھی۔ اگر ایسا نہ کہتی تو یہ مجھے مجبور کرتے کہ میں ان کے ساتھ جاؤں۔ خدا جانے وہاں جاکر یہ مکان حاصل کرنے کی خاطر مجھ پر کیا کیا دباؤ ڈالتے۔ اب کچھ عرصہ بعد میں وہ مکان بیچ دوں گی اور ہم اسی محلے میں کوئی مکان خرید لیں گے۔ میں بیٹے کے بڑے ہوجانے کا انتظار کررہی ہوں کیوں کہ مکان میں اس کا بھی حصہ ہے۔ اس بات پہ میں ان کی مجبوری جان کر چپ کرگئی کہ نیکی کی ہے تو اب نباہنا بھی ہوگا ورنہ نیکی برباد ہوجائے گی۔ میں نے بیٹے سے اس بارے میں معاملے کا تذکرہ کردیا تاکہ وہ بھی چوکنا رہے مگر بجائے صغری سے دل برا کرنے کے زیبا کے لئے اس کے دل میں محبت اترنے لگی اور اس نے مجھ سے اپنی دلی تمنا کا اظہار کردیا۔ والد کو اس امر پر راضی کرنا محال تھا۔ ان دنوں میں بے حد پریشان تھی۔ ایک طرف بیٹے کی خوشی اور دوسری طرف شوہر کی رضا و مرضی جو دل کے مریض بھی تھے۔ میں عجب کشمکش میں تھی۔ ایک روز اسی پریشانی میں بیٹھی تھی کہ ہمارے محلے کی ایک خاتون زبیده میرے پاس آئی۔ وہ کبھی کبھار آجاتی تھی۔ زبیدہ نے جو مجھے پریشان اور اداس دیکھا تو پریشانی کا سبب پوچھا اور کچھ اس طرح دل جوئی کی کہ میں نے اس کو الجهن سے آگاہ کردیا اور کہا کہ بتاؤ اب میں کیسے اس بھنور سے نکلوں؟ وہ کہنے لگی کہ تم کیوں پریشان ہوتی ہو۔ بہن یہ مجھ پر چھوڑ دو، میں کچھ تدبیر سوچوں گی۔ ان شاء الله تم پھر اس بھنور سے نکل آؤ گی۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ ہماری طرح کی سوچ نہیں رکھتی بلکہ ایک شاطر سوچ کی مالک ہے۔ اس نے باہر جاکر محلے والوں سے صغری کی بچیوں کے بارے میں غلط باتیں پھیلانا شروع کردیں کہ وہ غلط قسم کی لڑکیاں ہیں، ان کا کردار ٹھیک نہیں جبکہ ان کا والد نیک اور غیرت والا انسان تھا۔ تبھی اس نے ان لڑکیوں کے غلط چلن سے تنگ آکر خودکشی کرلی تھی۔ غرض کہ اس نے چپکے چپکے ان لوگوں کے خلاف ایسا زہر بھرا کہ محلے دار صغری اور ان کی لڑکیوں سے بدظن ہوگئے۔ حالانکہ ہمارا ان کے ساتھ دن رات کا واسطہ رہتا تھا اور ہم نے کبھی ان ماں بیٹیوں میں کوئی غلط بات نہیں دیکھی تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ تمام محلے کے معززین ایک روز مل کر میرے شوہر کے پاس آئے اور کہا کہ آپ صغری خاتون اور اس کی بیٹیوں کو چلتا کریں کیونکہ یہ غلط کردار کی ہیں۔ ہم ان کو اپنے محلے میں دیکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ میرے شوہر تو پہلے ہی اپنے یہاں ان لڑکیوں کا آنا جانا پسند نہ کرتے تھے۔ انہیں بھی بہانہ مل گیا اور مجھ سے کہا کہ ان کو کہہ دو کہ مکان خالی کرنے کی تیاری کرلیں۔ میں ان کو ایک ماہ کی مہلت دیتا ہوں تاکہ یہ اپنے کرایے داروں سے گھر خالی کرالیں۔ والد کے اس فیصلے پر شاہد بہت پریشان ہوا۔ کہنے لگا ماں یہ ابا نے اچانک کیا حکم صادر کردیا ہے؟ نیکی میں پہل بھی انہوں نے کی اور جلد بازی میں ملیامیٹ بھی خود کر رہے ہیں۔ اب اگر میں کہوں کہ میں ہر حال میں زیبا کو اپناؤں گا اور ان کی بھتیجی سے شادی نہیں کرنا چاہتا تو کیا ہوگا؟ صدمے سے ان کا ہارٹ فیل ہوجائے گا۔ خدا نخواستہ میں نے کہا... ہرگز ایسا لفظ بھی منہ سے مت نکالنا جس سے ان کی دل آزاری ہو۔ ابھی یہ معاملہ بيچ میں تھا کہ شاہد کے تبادلے کے آرڈر آگئے اور وہ لاہور سے کوئٹہ چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر صغری سے میرے شوہر نے مکان خالی کرالیا اور وہ دل گرفتہ ہمارے محلے سے چلی گئیں۔ میں نے غنیمت جانا کہ یہ لوگ چلے گئے ہیں کیونکہ بات الجهنے سے پہلے ہی یہ معاملہ ختم ہوگیا اور میں ایک بہت بڑی پریشانی سے بچ گئی۔ شاہد کو کئی دنوں تک پتا نہ چلا کہ ہمارے کرایے دار اب چلے گئے ہیں۔ چھ ماہ بعد وہ گھر آیا تو اس کی دنیا لٹ چکی تھی۔ اس کے چچا نے خود آکر بتایا کہ میری لڑکی آپ کے بیٹے سے شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ وہ اپنے ماموں کی بہو بننے کی آرزومند ہے۔ میری ایک ہی بیٹی ہے اور مجھے اس کی خوشی مقدم ہے۔ لہذا بڑے بھائی آپ ناراض مت ہونا۔ آپ کے پاؤں پر ہاتھ رکھ کر معافی کا طلب گار ہوں۔ میرے میاں کو بھائی پیارا تھا لہذا اس کی یہ بات بھی ان کو کڑوی نہ لگی۔ بولے رفیع بھائی جیسے تم خوش ہم بھی تمہاری خوشی میں خوش ہیں۔ تمہاری بیٹی میری بیٹی ہے۔ اگر تم کو اس کی خوشی عزیز ہے تو مجھے بھی ہے۔ یہ قصہ تو یوں تمام ہوا لیکن بیوه صغری کو گھر سے نکال کر ہم نے ستم کیا کہ دیور نے اس کو بعد میں بہت ستایا کیونکہ اس نے ہمارا آسرا لے کر اس سے مکان کا قبضہ چھڑایا تھا اور میرے بیٹے کے اثرورسوخ کی وجہ سے بھابھی کو تنگ کرنے کی اس شخص کی مجال نہ تھی لیکن جونہی اس کو علم ہوا کہ اب ہمارا آسرا نہیں رہا ہے۔ اس نے صغری کا جینا حرام کردیا۔ اس کی بڑی بیٹی کی شادی زبردستی ایک ایسے عمر رسیدہ شخص سے کردی جس نے اس کو بہت مالی فائدہ پہنچایا تھا۔ دوسرے معنوں میں اس کو بیچ ڈالا- زیبا نے اپنے چچا کی مرضی سے شادی کرنے سے انکار کیا تو اس کو بہت برا بھلا کہتا۔ مجبور ہوکر اس کو بھی چچا کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑ گئے، جس شخص سے اس کی شادی کی وه نکما آدمی تھا۔ اس نے زیبا کو نوکری کرنے پر مجبور کردیا اور اس کی تنخواہ سے وہ اپنے اخراجات پورے کرتا تھا۔ تیسری لڑکی کو البتہ اپنی بہو بنالیا کیونکہ یہ بچی بہت خوبصورت تھی۔ یوں بھتیجے کو بهی گهر رکھ لیا مگر صغری کو نکال دیا۔ وہ کچھ دن زیبا کے پاس رہی لیکن جب زیبا کے خاوند کی بدسلوکی بہت بڑھی تو یہ دونوں دارالامان چلی گئیں۔ ایک روز شاہد اپنے دوست سے ملنے اس کے آفس گیا تو اس کو وہاں صغرى نظر آگئی۔ شاہد کا یہ دوست سوشل ویلفیئر آفیسر تھا۔ اس نے بتایا کہ صغرى دارالامان میں رہتی ہے چونکہ بیمار ہے، لہذا اس کو آج اسپتال لے جانا ہے۔ صغری نے شاہد کو دیکھا تو پہچان لیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ شاہد نے کہا خالہ آپ یہاں؟ آپ تو بہت کمزور ہوگئی ہیں، تبھی میں نہ پہچان سکا۔ بہرحال جب میرا بیٹا گھر آیا تو بہت افسرده تها۔ کہنے لگا امی آپ لوگوں کو کیا ملا؟ ایک بیوہ عورت کو آسرا دیا اور پھر بھری دنیا میں بے آسرا کرکے دھکا دے دیا۔ میں زیبا سے تو نہ مل سکا مگر اتفاق سے صغری خالہ سے ملاقات ہوگئی۔ شاید خدا کو ملانا منظور تھا۔ ان کی تو بہت بری حالت تھی۔ ان کو کینسر ہے۔ آپ سوچئے کہ ان کے بعد زیبا بیچاری کا کیا بنے گا؟ آپ ایک بار ضرور ان سے مل لیجئے۔ مجھے بھی بہت دکھ ہوا یہ سب سن کر میں نے بیٹے سے کہا کہ آپ ملاقات کا انتظام کروادو، میں مل لوں گی۔ انہی دنوں میرے میاں کی طبیعت ایسی بگڑی کہ پھر نہ سنبھلی اور وہ خالق حقیقی سے جاملے۔ کچھ دن ہم ان کے سوگ میں رہے اور میں عدت میں تھی کہ ایک دن شاہد نے بتایا کہ صغری خالہ وفات پاگئی ہیں کیونکہ وہ مرض کے آخری اسٹیج میں تھیں اور زیبا...؟ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ اس کو اس کا بھائی دارالامان سے لے گیا تھا ... اس کے بعد نہیں معلوم اس کا کیا بنا۔ شوہر کے پاس گئی یا بھائی کے پاس ہے کیونکہ اس کے بھائی کی اب نوکری ہوگئی تھی اور اس نے اپنے چچا سے علیحده کرایے کا مکان لے لیا تها، تبھی وہ ماں کو لینے آیا تھا۔ ماں تو اس کو نہ مل سکی مگر بہن مل گئی۔ زیبا نے بھائی کے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو دارالامان کے با اختیار آفیسر نے اس کو اپنے بھائی کے ہمراہ جانے کی اجازت دے دی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں محلے والوں کے سبب زیبا سے ملنے بھی نہ گئی اور معلوم نہ کیا کس حال میں ہے۔ شاہد کی شادی اس واقعے کے دو سال بعد اس کی خالہ کی بیٹی سے ہوگئی۔ میری بہو بہت اچھی ہے۔ وہ شاہد اور میرا خیال رکھتی ہے۔ بظاہر تو میرا بیٹا خوش ہے لیکن اب بھی وه زیبا کے لئے اداس ہوتا ہے اور اکیلے میں مجھ سے کہتا ہے۔ ماں آپ نے بھی میرا ساتھ نہ دیا۔ اگر ابا جان کو سمجھالیتیں تو آج میرے دل پر وہ گھاؤ نہ لگتا جو مجھے اب بھی کبھی کبھی بہت تکلیف دیتا ہے۔ میں کہتی ہوں بیٹا یہ سب نصیب کی بات ہے۔ وہ پرانا زمانہ تھا سو میں کچھ نہ کرسکی۔ آج زمانہ بدل گیا ہے۔ آج عورتیں اپنے حق کے لئے بول پڑتی ہیں مگر ہمارے زمانے میں مجال نہ تھی کہ ہم شوہر، باپ یا بھائی کے سامنے بول پاتیں۔ میں مجبور تھی بیٹا مجھے معاف کردو۔ بیٹے نے تو معاف کردیا مگر سوچتی ہوں کہ زیبا نے بھی کیا ہم کو معاف کردیا ہوگا؟ اس واقعے کو برسوں بیت گئے ہیں۔ اب بھی کہتی ہوں زیبا کہاں ملو گی کہ مرنے سے قبل تم سے معافی مانگ لوں۔

Post a Comment

0 Comments