Jurm Chupta Nahi | Teen Auratien Teen Kahaniyan | WEEKLY AKHBAR-E-JEHAN


 


جب میرے تایا زاد زاہد پولیس کے محکمے میں انسپکٹر ہوگئے تو بزرگوں میں ہماری شادی کی بات چلی۔ امی اور تائی میں آن بن تھی، مگر مردوں نے گھر کی عورتوں کے اس الجهاؤ کو پس پشت ڈال دیا اور دادا کے حتمی فیصلے کے بعد میری شادی زاہد سے ہوگئی۔ ہم دونوں ہی اس بندھن سے خوش تھے۔ کبھی کبھی چھیڑنے کو کہہ دیتی کہ تم پولیس والوں سے خدا بچائے۔ تمہاری دوستی اچھی اور نہ دشمنی اچھی... اس پر زاہد جواب دیتے۔ کیا تم کو پولیس والا لگتا ہوں؟ دیکھو تو کتنا سيدها سادها ہوں میں۔ ہاں تم سیدهے تو ہو مگر جلیبی کی طرح۔ میں ہنس پڑتی ٹھیک کہتی ہو ہم کتنے بھی سیدھے کیوں نہ ہوں ہماری نظریں دور سے مجرم کو پہچان لیتی ہیں۔ واقعی زاہد نے سچ کہا تھا۔ اس کا ثبوت تب ملا جب انہوں نے اپنے محلے کی ایک مسکین سی عورت ’’اماں زبیدہ‘‘ کو قتل کے جرم میں دهرلیا۔ اماں زبیده ایک ادھیڑ عمر اور حلیم الطبع عورت تھی۔ اس کا کام زچہ کی خدمت اور نوزائیدہ بچوں کو نہلانا دھلانا تھا۔ تبھی وہ سارے محلے کی جانی پہچانی ’’اماں‘‘ کہلاتی تھی۔ اس کی اچھی عادات کی وجہ سے سبھی اس کی عزت کرتے تھے۔ کچھ دنوں سے رمشا کے گھر میں بے چینی پائی جارہی تھی۔ رمشا ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ میری اس کے ساتھ اچھی دوستی تھی۔ وہ شروع دن سے مجھ کو بھلی لگتی۔ ہر وقت کلی کی طرح شگفتہ اور پھول کی مانند کھلی کھلی نظر آتی۔ مجھے خبر تھی کہ وہ سامنے والے پراپرٹی ڈیلر سبحان صاحب کے نوجوان لڑکے ذیشان کے عشق میں گرفتار ہے۔ ان دنوں میری نئی شادی ہوئی تھی، یوں زاہد کے ساتھ نئے شہر اور نئے محلے میں رہنا پڑا جبکہ باقی سب گهر والے لاہور میں تھے۔ زاہد صبح ڈیوٹی پر چلے جاتے، تب میں اکیلی رہ جاتی۔ کنبے میں رہنے کی عادی تھی۔ تنہائی کاٹنے کو دوڑتی۔ تبھی رمشا کا آنا میرے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ وہ بہت باتونی تھی، جب آتی قصے کہانیوں کا پٹارہ کھول دیتی، مگر اس کا زیادہ تر موضوع ذیشان ہوتا۔ ہر بات کو گھما پھرا کر وہ اسی کے تذکرے پر ختم کرتی تھی۔ اس کا انداز بیاں دلچسپ تھا۔ سو میں بھی اس کی دلی وارداتیں مزے لے لے کر سنا کرتی۔ سمجھاتی بھی تھی کہ نادان ہوش کے ناخن لے، کہیں یہ عشق تیری جان ہی نہ لے لے۔ یہ مرض لا علاج چھپتا نہیں، پھر بات کھلی... گلی گلی عام ہوئی، خوشبو اڑی تو پھیلتی ہی چلی گئی۔ غیروں کو پہلے خبر ہوئی، اپنوں کو بعد میں پتا چلا۔ بالآخر اس کے گھر والوں کو بھی سن گن ہوگئی۔ ماں اور بہنیں سمجهانے الگیں مگر عشق کا دریا منہ زور. وه اس میں بہتی ہی چلی گئی۔ ماں کی روک ٹوک سے دبے ہوئے طوفان نے اور شدت اختیار کرلی اور چوری چھپے راتوں کو بھی اس کی ملاقاتیں ذیشان سے ہونے لگیں۔ مجھ سے بے تکلف تھی۔ شاید کہ میں ہی واحد ہستی تھی کہ جس پر وہ کامل بهروسہ کرتی تھی۔ اب وہ ہر ملاقات کا حال مجھ کو بتاتی اور میں ہر بار اس کو کہتی... نادان باز آجاؤ جس رستے چل رہی ہو، آگے کوئی چمن نہیں، | گڑھے اور کھائیاں ہیں۔ دیکھو اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا۔ ذرا تھم کر چلو۔ تو کیا...تهم تهم کر چلنے سے گڑهے اور کھائیاں چمن اور گلزار ہوجائیں گے ؟ تب میں سر پکڑ کر کہتی اچها...بابا...جا... اپنا سر کھا... کل کلاں کچھ ایسا ویسا ہوگیا تو میرے پاس مت آنا اور مجھ سے کچھ نہ کہنا۔ ہرگز نہ آؤں گی اور نہ آپ جناب سے کچھ کہوں گی۔ یہ میرا وعدہ رہا۔ جب رمشا کے والد اور بھائیوں کو سن گن ہوئی تو انہوں نے سختی سے باز پرس کی۔ پھر تو یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ رمشا پر سختی کی باز گشت ہمارے گھر تک آنے لگی اور اس کی مار کٹائی اور آہ وزاری سے میرا سکون تہہ و بالا ہوگیا۔ اب اس نے میرے گھر آنا ترک کردیا۔ سوچتی تھی نجانے کب یہ جھگڑا ختم ہوگا اور اس کہانی کا کیا انجام ہوگا۔ اب میں رمشا کی خیریت دریافت نہ کرسکتی تھی، اس پر پابندیاں لگ گئی تھیں۔ اس کہانی کا عافیت بهرا حل تو یہی تھا کہ رمشا اور ذیشان کے بزرگ ہوش سے کام لیتے اور دونوں کو ایک بندھن میں پابند کردیتے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے والہانہ لگاؤ رکھتے تھے۔ جب لڑکا لڑکی راضی تو کیا کرے گا قاضی...؟ لیکن یہاں معاملہ ایسا نہ تھا، کیونکہ نہ تو رمشا کے گھر والے ذیشان کو پسند کرتے تھے اور نہ ذیشان کے والدین رمشا کو اچها جانتے تھے۔ رمشا ان دنوں سخت مایوسی اور افسردگی کا شکار تھی لیکن وہ ذہنی طور پر بے حد توانا لڑکی تھی۔ ایسی نہ تھی کہ محبت میں ناکامی کی وجہ سے خودکشی کرلیتی۔ وہ کہتی تھی کہ ذیشان نہ بھی ملا تو میں ہرگز جينا نہ چھوڑوں گی۔ زنده ره کر عمر بھر اس کی یاد میں بتا دوں گی۔ اچانک پتا چلا کہ رمشا غائب ہوگئی ہے۔ میں سناٹے میں آگئی۔ سوچنے لگی یہ تو میرا تجزیہ تھا کہ وہ دیوانگی میں بھی فرزانگی کا دامن نہ چھوڑے گی۔ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے گی جس پر لوگ انگشت بہ دنداں ہوں، تاہم میرا تجزیہ غلط بھی تو ہوسکتا تھا، کیونکہ وہ تھی تو ایک نرم ونازک کم سن لڑکی، کسی بھی وقت زمین اس کے پاؤں کے نیچے سے نکل سکتی تھی۔ مجھے لگا کہ واقعی زمین اس کے پاؤں تلے سے نکل گئی ہے، کیونکہ وہی غائب نہ تھی، سامنے والا لڑکا ذیشان بھی غائب تھا۔ اب لوگوں میں چہ میگوئیاں بڑھ گئیں اور رمشا کے گھر والوں کی زبان پر جو داستان تھی وہ بھی کھوکھلی لگنے لگی۔ وہ کہتے کہ خالہ کے ہاں چند دن کو رہنے گئی ہے۔ وہ نہ آئی تو کہا کہ وہاں بخار آیا۔ رات کو سوئی تو صبح اٹھ نہ سکی۔ وہاں ہی آبائی قبرستان میں دفنا دیا ہے۔ یہ بناوٹی تاویل تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ وہ منہ سے نہیں کہتے مگر صاف ظاہر تھا کہ ان کی لڑکی گھر والوں کی عزت کو

خاک میں ملاکر بھاگ گئی تھی۔ ادھر ذیشان کے ماں باپ کو چپ لگی تھی۔ وہ دبی زبان سے بھی کچھ نہیں کہتے تھے۔ کئی دنوں سے ذیشان نظر نہیں آرہا تھا۔ جب سے رمشا اور ذیشان غائب ہوئے تھے۔ اس لڑکی کے گھر پر بھی سناٹا طاری تھا، جھگڑے اور رمشا کے رونے دھونے کی آوازیں بھی بند تھیں، چند ہی روز اس کی گمشدگی کا معاملہ چهپا رہا لیکن بعد میں ہر کسی کو علم ہوگیا کہ وہ گھر سے غائب ہوگئی ہے۔ مجھ کو اس کے بارے میں ایک طرف پریشانی تھی تو دوسری طرف حیرت بھی کہ آخر اس کے والد اور بھائی بیٹی کی گمشدگی کے بارے میں پولیس کی طرف رجوع کیوں نہیں کررہے۔ لاکھ رمشا کے بارے فکرو پریشانی سہی۔ مجھ کو اس کے چلے جانے سے یک گونہ سکون بھی محسوس ہوا کہ چلو... وہ مار کٹائی کی اذیت سے تو بچی۔ بلا سے اپنی مرضی سے شادی کرلے گی۔ اس کی بے قراری اور جدائی کی تڑپ کا جذبہ تو مٹے گا۔ اب دونوں کہیں سکھ چین سے ہوں گے۔ ان کے گھر والوں کو بھی کچھ عرصہ کے بعد بالآخر قرار آہی جائے گا۔ رمشا اور ذیشان کی گمشدگی کو چھ ماہ گزرے تھے کہ میرے یہاں منے کی پیدائش ہوئی۔ کچھ دن اسپتال ره کر گھر آئی تو میری ساس نے مجھ کو مشوره دیا کہ تم محلے کی کسی ایسی غریب عورت کو بلوالو جو کچھ دن تمہاری اور منے کی دیکھ بھال کرلے۔ میں نے ذہن پر زور دیا، یا د آیا، ہاں۔ ہمارے محلے میں ایک ’’اماں زبیده ‘‘ تو ہے جس کو زچہ وبچہ کے کاموں کے لئے لوگ اجرت پر بلاتے رہتے ہیں۔ اگلے روز شام کو جب اماں زبیده میری ملازمہ فرحت کے ساتھ ہمارے گھر آئی تو زاہد سامنے ہی برآمدے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ اس کو غور سے دیکھنے لگے اور چائے کا کپ ہاتھ میں ہی رہ گیا۔ اپنے شوہر کو اتنے انہماک سے زبیدہ کو دیکھتے پاکر میں حیران ہوئی کہ آخر ایسی کیا بات ہے جو یہ اس معمولی سی عورت کا چہرہ پڑھ رہے ہیں۔ میں نے ان کا کندھا پکڑ کر ہلایا۔ کیا ہوا ہے... کہاں ہو؟ ملازمہ زبیدہ کو لے کر میرے کمرے میں چلی گئی مگر زاہد کے ذہن میں شکوک کی با سموم بهر گئی۔ اس بات کو بھلا کر کہ زاہد اماں زبیده کو دیکھ کر کیوں اس طرح چونکے تھے، میں نے اس خاتون کے ساتھ معاملہ طے کرلیا کیونکہ ساس ضعيف تھیں، چند دنوں کو آئی تھیں اور میں کافی کمزور بھی ہوگئی تھی۔ اب وہ روز گیارہ بجے آجاتی اور چند گھنٹے رہتی، منے کے اور میرے کپڑے دهو دیتی، میرے نوزائیدہ بچے کی روز مالش کرنا اور اس کو نہلانا بھی اسی کے ذمہ تھا۔ ایک دن زاہد گھر پر تھے کہ اماں زبیده آگئی۔ میاں کو بیٹے کے جنم کی مبارک باد دے کر انعام کی توقع کرنے لگی اور وہ پھر سے اس کی صورت کو غور سے دیکھنے لگے۔ میں حیران تھی کہ بڑھیا کی صورت میں ایسی کیا بات ہے کہ اک ٹک اسے دیکھے ہی جاتے ہیں؟ تبھی ایک خیال میرے ذہن میں کوندا کہ میرے میاں پولیس والے ہیں اور زبان خلق یہی کہتی ہے کہ پولیس والوں کی تیز نگاہوں سے خدا بچائے کہ یہ قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور مجرم کو دیکھ کر ہی پہچان لیتے ہیں۔ تفتیش کرنا اور شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھنا تو ان کی تربیت میں شامل تھا۔ جب زبیده اماں چلی گئی تو میں نے کہا۔ زاہد کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ آپ تو اس بچاری کی شکل کو یوں تکتے ہیں جیسے کسی مجرم کی ٹوہ لگا رہے ہوں۔ وہ تو بے چاری غریب اور محنت کش عورت ہے، بھلا کسی جرم سے اس کا کیا واسطہ...؟ کہنے لگے۔ چند دن صبر کرو، تمہارے سوالات کا جواب مل جائے گا۔ مجھے نہیں معلوم انہوں نے کیسے، کیونکر... اس معاملے کی ٹوہ لگائی، چھان بین کی، تفتیش سرانجام دیتے رہے اور پھر اماں زبیده پر کیس بن گیا۔ اور جب جرم پایۂ ثبوت کو پہنچا تو بات ظاہر ہوگئی، گرچہ یہ قتل عمد نہ تها مگر زبیده کا کیا دھرا جرم کے زمرے میں تو آنا ہی تھا۔

اس جرم میں رمشا کے گھر والے شامل نہیں تھے۔ وہ تو قطعی لاعلم تھے۔ رمشا اور ذیشان خود چل کر اماں زبیده کی خدمات حاصل کرنے گئے تھے۔ ذیشان اس کو اس اناڑی خاتون کے پاس لے گیا جس نے اپنے اناڑی پن کی وجہ سے کوئی ایسی مہلک دوا لڑکی کو دے دی کہ اس کی جان چلی گئی۔ ذیشان رات کے اندھیرے میں اماں کے گھر سے دم توڑتی رمشا کو گاڑی میں ڈال کر لے گیا تھا۔ اس کے بعد کا نہیں پتا کہ اس نے اس کے بے جان لاشے کو کیسے اور کہاں دفن کیا۔ یہ سب اس نے رمشا اور اس کے گھر والوں کو بدنامی سے بچانے کے لئے کیا تھا۔ کیونکہ بزرگ اس نازک صورت حال کو سمجھتے ہوئے بھی دونوں کی شادی پر راضی نہ تھے۔ اصل مجرم کون تھا۔ اس کا فیصلہ نہ ہوسکا مگر قانونی سزا کی صورت اماں زبیدہ کو اس کے کئے کی سزا مل گئی

Post a Comment

0 Comments